Thursday, February 12, 2015

Urdu Speaking People Have Always Taken Something from it, Never Gave it Anything !اہل اردو نے اردو سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ لیا ہے ، بہت کم لوگ ہیں جو اسے کچھ دیتے ہیں

Urdu Speaking People Have Always Taken Something from it, Never Gave it Anything !اہل اردو نے اردو سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ لیا ہے ، بہت کم لوگ ہیں جو اسے کچھ دیتے ہیں

شاہد لطیف
25 جنوری، 2015
آج کی دنیا اور بیس پچیس برس پہلے کی دنیا میں زمین اور آسمان کا فرق ہے ۔ یہ فرق ، اُس فرق سے کئی گناہ زیادہ ہے جو بیس پچیس  سال پہلے کی دنیا اور اس سے سو پچاس سال پہلے کی دنیا میں تھا۔ گزشتہ ربُع صدی میں حالات اتنی تیزی سے بدلے ہیں کہ انسانی زندگی  بھی حیرت انگیز تغیرات سے دو چار ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ۔ہمارے روز مرہ کے معمولات حتیٰ کہ ترجیحات میں بھی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ آج کا انسان اتنا سماجی نہیں  رہ گیا جتنا کل تھا ۔ اس کے نزدیک تہذیب و ثقافت کی اتنی اہمیت نہیں رہ گئی ہے جتنی کل تھی ۔ انسانی قدروں کے تئیں اب وہ اتنا حساس بھی نہیں ہے جتنا تھا۔ اب وہ اتنا جذباتی بھی نہیں رہ گیا ہے ۔ بلاشبہ ، گزرتے وقت کے ساتھ بہت کچھ بدلتا ہے اور ہر دور میں بدلا ہے لیکن جو تبدیلیاں اِس دوران رونما ہوئی ہیں، گزشتہ صدیوں  میں ان کی دھمک بھی شاید محسوس نہیں  کی گئی تھی ۔
دنیا کی نصف زبانیں خاتمے کے قریب:
 ان تغیرات بالخصوص تکنالوجی کی ترقی اور عالم کاری ( گلوبلائزیشن)سے دور حاضر کا انسان چاہئے جتنا مستفید ہورہاہو، تبدیلیوں  کے اس چراغ تلے کچھ کم اندھیرا نہیں ہے۔ یہ تبدیلیاں معاشرتی، ثقافتی اور لسانی  خواص پر بڑے ناخوشگوار اثرات مرتب  کررہی ہیں ۔ دیگر کئی نقصانات کے ساتھ ساتھ ایک نقصان بلکہ نقصان عظیم یہ ہورہا ہے کہ دنیا بھر میں بولی جانے والی 7 ہزار زبانوں میں سے تقریباً نصف قصۂ پارینہ ہوجانے کو ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق شمالی آسٹریلیا ، وسطی جنوبی امریکہ ، شمالی امریکہ،  مشرقی سائبیریا اور جنوب مغربی امریکہ وہ علاقے ہیں جہاں زبانیں تیزی سے فوت ہورہی ہیں۔ شکر ہے کہ اس فہرست میں وطن عزیز شامل نہیں ہے لیکن یہ کہنا کہ ہماری تمام زبانیں آج بھی اتنی ہی قوت سےرائج ہیں جتنی کہ ماضی میں تھیں، درست نہیں ہوگا۔ جو شکوہ اہل اردو  کو اردو کے تعلق سے ہے کہ اردو معاشرہ اور زبان کامعیار روبہ زوال ہے،وہی شکایت دیگر زبانوں کے لوگوں کو اپنی زبانوں  کے تعلق سے ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ ہماری ترجیحات بدلیں اور ترمیم شدہ ترجیحات میں ، بد قسمتی سے ، زبانوں کی ترویج و تحفظ کی کوئی شق شامل نہیں ہے۔ جس طرح زبانیں آناً فاناً وجود میں نہیں آجاتیں اسی طرح وہ دیکھتے دیکھتے فوت بھی نہیں ہوتیں ۔ جو زبانیں ہمارے درمیان ہیں وہ بولی  اور سمجھی  جارہی ہیں، لکھی اور پڑھی جارہی ہیں چنانچہ زندہ ہیں لیکن اُن کا معیار؟ اس حقیقت سےکوئی انکار نہیں کرسکتا کہ معیار مثاتر ہوا ہے۔ زبانوں کی صحت  دن بہ دن خراب ہوتی چلی گئی ہے۔ جن خاندانوں کو اپنی زبان پر ناز تھا، ان میں وہ نسل آچکی ہے جو زبان کے تعلق سے حساس نہیں ہے۔ کئی گھرانے ایسے ہیں جہاں والدین اردو، ہندی، مراٹھی ، گجراتی ، تامل ، کنڑ وغیرہ میں سے کم از کم ایک زبان بولتےہیں لیکن اُس زبان کے بارےمیں بچوں سے دریافت کیجئے تو کئی خوش کن جواب نہیں ملے گا کیونکہ وہ کسی اور زبان عموماً انگریزی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ اہل اردو محسوس کرتے ہیں کہ مسئلہ صرف اردو کا ہے۔ جی نہیں ، مسئلہ  دیگر ہندوستانی زبانوں کا بھی ہے اور دیگر ملکوں  کی اُن زبانوں کابھی جو عالمی سطح پر بولی اور سمجھی جانے والی انگریزی  سے نبرد آزما ہیں ۔ کم یا زیادہ ساری زبانوں کی مقبولیت اور معیار متاثر ہوا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کل اِن زبانوں کا کیا ہوگا۔ بےشک ، یہ ‘‘کل’’ اتنی جلدی نہیں آئے گا لیکن یہ سمجھنا  کہ ‘‘ کبھی نہیں آئے گا’’ شاید خود کو بہلانے کی کوشش کےمترادف ہے۔
زبانوں کو زندہ در گور کرنے والے محرکات :
عالم کاری ( گلو بلائزیشن) ، شہر یا نے کا عمل ( اربنائزیشن) ، صارفیت ، پوری دنیا میں رابطے کی زبان کے نام پر ایک مخصوص زبان ( انگریزی) کے تسلط کی کوشش ، زبانوں کے تعلق سے یہ پروپیگنڈا کہ وہ محض اظہار کا وسیلہ اور ترسیل کا ذریعہ ہیں اس کےعلاوہ کچھ نہیں جیسے عوامل زبانوں کے لئے سم قاتل ثابت ہورہے ہیں ۔ مختلف ملکوں میں بولی اورسمجھی جانے والی اُن زبانوں  کو بھی ، جو کل تک بڑی زبانوں میں شمار کی جاتی تھیں، انگریزی  سے خطرہ لاحق  ہے۔ انگریزی  کو عالمی رابطے اور ترقی کی زبان بنا کر پیش کئے جانے کی جد وجہد سے کئی ملکوں کے اُن خاندانوں کی نئی نسل انگریزی میں کشش محسوس کرنے لگے ہے جواپنی زبان سے اس حد تک محبت کرتے تھے کہ دیگر زبانوں کے الفاظ کا استعمال بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے ۔سائنس اور ٹکنالوجی کی حیران کن ترقی بلاشبہ اس دور کا کار نامہ عظیم ہے لیکن ہر نئی ایجاد کا جس نام سے تعارف کرایا جاتا ہے وہ عموماً انگریزی ہی کا کوئی لفظ ہوتا ہے۔ریفریجریٹر سے لے کر موبائل تک اور ٹیلی ویژن سے لے کر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک یا ان کے گاڑھے تکنیکی ناموں تک سب کچھ انگریزی سے مستعار ہے۔ جتنی  بھی جدید اشیا ہمارے روز مرہ کا حصہ بنی ہیں سب نے ہماری بول چال کی زبان میں انگریزی کے الفاظ داخل کردیئے  ہیں۔  یہ الفاظ اتنی سرعت کے ساتھ مقبول اور رائج ہوئے کہ ان کے نعم البدل کی تلاش بھی بے معنی سی ہوکر رہ گئی۔مثال کے طور پر لفظ موبائل ، جتنی تیزی سے عام ہوا اتنی ہی تیزی  سے قبول کر لیا گیا۔ اب آپ چاہیں کہ اس کا اردو نعم البدل وضع کریں تو یہ حمایت قرار پائے گی اور لوگ باگ مضحکہ اڑائیں گے کہ جب ایک لفظ اس حد تک رائج ہوگیا کہ پوری دنیا میں بولا جارہا ہے تو اسے ‘‘ اُردو وَانا’’ چہ معنی دارد‘ ویسے بھی اہل اردو ہر غیر اردو لفظ کو یہ کہتے ہوئے جو ں کا توں قبول کرلینے کے عادی ہیں کہ ہماری زبان کے مزاج میں اتنی لچک ہے کہ کسی بھی زبان کا لفظ اِس زبان کے ذخیرہ الفاظ میں ایسے ضم ہوجاتا ہے جیسے اسی زبان کا زائیدہ اور پروردہ ہو۔ صاحبو، اردو میں جو لچک اور لوچ ہے اس سے کسی کو انکا رنہیں  ہوسکتا لیکن متبادلات کے نہ ہونے سے اردو کا دائرہ بہر حال محدود ہورہا ہے کیونکہ معاملہ صرف ایجادات و انکشافات تک محدو د نہیں ۔ عالمی سطح پر کئی نظریات کی تفہیم بھی انگریزی  زبان ہی سے  مشروط ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ چاہے کوئی سائنسی نظریہ ہو یا معاشی، اطلاعاتی تکنالوجی سے متعلق ہو یا کسی اور علم جدید سے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آپ سائنس یا تکنالوجی یا معاشیات کے کسی مضمون کا اردو ترجمہ کرنا چاہیں تو معیاری ترجمہ مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہوگا ۔ مثال کے طور پر بیلنس شیٹ کو آپ کیا کہیں گے اور کیسے سمجھائیں گے کہ یہ کیا بلا ہے؟ اور اگر آپ سمجھانے کی زحمت اُٹھانے لگے تو جس مضمون کا ترجمہ کرنا ہو وہ تو دھرا کا دھرا ہی رہ جائے گا! یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ہمیں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا ہوگا کہ ہم نے اپنی زبان کو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کتنی کوشش کی ۔ جب کوشش ہی نہیں ہوگی تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا نکل سکتاہے کہ ہم کمپیوٹر کو کمپیوٹر ہی کہیں  اور بیلنس شیٹ ہی لکھیں  ورنہ کوئی سمجھ ہی نہیں پائے گا کہ کیا کہہ دیا اور کیا لکھ دیا۔ یہی ہورہا ہے۔ہماری بول چال کی زبان میں جو نئے الفاظ  در آرہے ہیں وہ دیگر زبانوں بالخصوص انگریزی کے ہیں او رجو ہمارے اپنے الفاظ تھے اور اب بھی لغت میں موجود ہیں، ترک استعمال کا شکار ہیں ، کوئی ان سے واقف ہو بھی تو استعمال  نہیں کرسکتا کہ سمجھے گا کون؟
ہمارے پاس الفا ظ نہ ہوں ایسا بھی نہیں  ہے لیکن اُن سے ہمارا رابطہ ہی نہیں رہ گیا ہے۔ دن بہ دن یہ خلیج بڑھتی جارہی ہے ۔ اسی لئے ، میری طرح یقیناً آپ بھی سوچتے  ہوں کہ اب سے چند برس بعد ‘‘یک الف بیش نہیں صیقل آئینہ ہنوز’’ جیسے غالب کے مصرعوں کو کون سمجھ پائے گا؟ ویسےبھی ‘‘نقش’’ کو اصناف کے ساتھ پڑھنے جیسے ادبی و شعری گناہ کا ارتکاب تو کرنے ہی لگے ہیں!!
دروغ بر گردن راوی، آگےبڑھنے سےقبل یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایک اسکول میں جب طالب علم  نے اپنےاستاد سے پوچھا کہ ‘‘جناب، راستی کسے کہتےہیں؟’’ تو استاذ محترم نے چند ثانیوں تک کچھ سوچنے کےبعد جواب دیا : ‘‘ راستی؟ راستی نہیں جانتے؟؟ چھوٹا راستہ !!’’
ٹی وی، ویڈیو، موبائل، انٹر نیٹ اور ایسے ہی دیگر آلات کے فوائد سےکسی کو انکار نہیں ہوسکتا لیکن یہ اور ایسی جادو اثر دلچسپیوں نے انسان کو اتنا مصروف کردیا ہے کہ اب اُن کے پاس لکھنے، پڑھنے ، سیکھنے اور زبان کو بہتر  بنانے کا وقت ہی نہیں رہ گیا ہے۔ نوجوانوں میں نئے آلات کے ذریعہ باہمی رابطہ کیلئے جو زبان استعمال ہورہی ہے وہ بھی چوں چوں کامربہ ہے۔ اس میں اتنی بے دردی سے زبان کی کھال کھینچی جاتی ہے کہ نہ تو انگریزی سلامت رہ پاتی ہے۔ نہ ہی اُردو یا ہندی محفوظ ۔ اکثر اوقات ‘‘ ہر چہ آید در گھسیٹ ’’ کے مصداق جو لفظ جہاں سے مل جائے، استعمال کرلیا جاتاہے ۔ ایسے نوجوان کسی بھی زبان کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے ۔
صارفیت ، عالم کاری اور شہریانے کا تیز تر عمل جہاں  وقت کا دشمن ہے وہیں زبان و ادب کو بھی نقصان پہنچارہا ہے ۔ نت نئی مصنوعات میں کشش محسوس کرنے والے ہزار ملیں گے تب کہیں جاکر کوئی ایک آدھ شخص کتاب سے دلچسپی رکھنے والا سامنے آسکتا ہے۔ ماضی میں ، چھوٹے چھوٹے قصبات  میں وقت  کی فراوانی ہوا کرتی تھی ۔ اب وہاں بھی شہروں جیسی صورت حال ہے۔ چائے  خانوں ، نکڑوں اور دکانوں کی وہ محفلیں دم توڑ چکی ہیں جہاں چند لوگ مل بیٹھتے اور دنیا جہان کی باتیں کیا کرتے تھے ۔ انہی میں اخبار کی خبروں اور مضامین  پر گفتگو یا کسی کتاب کے چند ایک مشمولات پر تبادلۂ خیال کا جو معمول تھا اب وہ بھی داغ مفارقت دے چکا ہے۔ یہ محفلیں یا تو خالص  کاروباری ہوچکی ہیں یا یہاں بھی سیر یلوں ، فلموں، برقی پیغامات اور نت نئے آلات  کی گونج سنائی دیتی ہے۔ گھروں  کے بڑے، چھوٹوں کے ساتھ بیٹھتےبھی  ہیں تو ٹی وی دیکھتے ہوئے نئی مصنوعات پر گفتگو کرتے ہوئے، سیر سپاٹے کے پروگرام بناتے ہوئے یا واٹس اپ یا فیس بک وغیرہ کے مشمولات پر خوش گپیاں  کرتے ہوئے ۔ زبان اور ادب کی یہاں بھی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔
اردو کی صورت حال:
اردو اس اعتبار  سے خوش نصیب ہے کہ اس کی شگفتگی  ، دلآویزی  اور شیرینی  بہت سوں کو دیوانہ بنائے رکھتی ہے۔ وہ لوگ جو اُردو نہیں جانتے، اردو کے شائق ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ اردو کی حالت دیگر متعدہ زبانوں سےبہتر ہے لیکن اس حالت کوبہت اچھا بھی نہیں  کہا جاسکتا ۔ حقائق یہ سمجھانے کیلئے کافی  ہیں کہ اگر اردو کے تحفظ ، اس کی ترویج ، اسے نئی تکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے اور اسے روزگار سے جوڑنے کی کوشش ہر ممکن سطح پر نہیں کی گئی تو اس کا دائرہ جو محدود ہوتاچلا گیا ہے، محدود تر ہوجائے گا۔اردو کے رسائل و کتب کی جو حالت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ، اُردو اور روزگار میں بعد المشرقین سا ہوگیا ہے ، اردو کو حاصل سرکاری مراعات کی زیادہ سے زیادہ اثر پزیری ہنوز ایک معمہ ہے ( سوائے چند ایک اداروں کے جن کے ارباب اقتدار نئے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے منصوبے بناتے  اور انہیں روبہ عمل لاتے ہیں)، اردو کا صحیح اِملا ، اردو کے صحیح تلفظات ، اردو اشعار کی صحیح قرأت ، اُردو  کے  کلاسیکی  شاعروں اور ادیبوں سے خود اردو عوام کی وسیع تر واقفیت وغیرہ  کی صورت حال بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ نئے علوم کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی رفتار بھی انتہائی سست ہے۔ اردو  تہذیب کتابوں تک محدود ہوگئی ہے۔ اردو کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کا سب سے مؤثر ذریعہ ( مشاعرہ) اپنی ادبی خصوصیات سے عاری ہوچکا ہے  اور سو باتوں کی ایک بات یہ کہ نئی نسل اردو سے دور ہو رہی ہے۔ہندوستان او رپاکستان کو چھوڑ کر جن دیگر ملکوں  میں اردو بولی ، لکھی او رپڑھی جاتی ہے وہ اُن تارکیں وطن کی مرہون منت ہے جو اُن ملکوں میں آباد ہیں ۔ وہ نشستیں اور مشاعرے برپا کرتے ہیں، اردو رسائل و جرائد جاری کرتے او رجاری رکھتے ہیں لیکن  یہ ساری رونقیں  ان ہی کے دم خم سے ہے۔اہل اقتدار سے اہل اردو کا تعلق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ یا تو خوش ہوتے ہیں یا ناراض ہوجاتےہیں ۔ مختصر یہ کہ اردو کی صورت حال کا بڑا تعلق اس طرز عمل سے ہے جو اہل اردو نے اپنا رکھا ہے۔ یہ حقیقت  ہے کہ اہل اردو نے اردو سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ لینے کی کوشش کی ہے ، وہ چاہے تنخواہ کی شکل میں ہو  یا شہرت و مقبولیت  کی شکل میں ۔ جہاں تک کچھ دینے کا سوال ہے ،بہت کم لوگ ہیں جو زبان کو اپنی جانب سے کچھ دیتے ہیں ۔ ستم ظریفی  یہ بھی ہے کہ جو لوگ بُری کتابیں لکھتے ہیں وہ بھی یہ سمجھتے  ہیں کہ اردو کو بڑا فیض پہنچا رہے ہیں ۔
کرنے کے کام:
ان حالات میں پوری اردو دنیا کو فوراً سے پیشتر ان کاموں کیلئے کمر بستہ ہوناہوگا جن سے اردو کو جلا مل سکتی ہے۔ اکابرین اردو کو ایک لائحہ عمل مرتب کرنا او ریہ سمجھانا ہوگا کہ کون سے کام کس سطح پر ہونے چاہئیں ، مثال کے طور پر تدریسی سطح پر کیاہو، لسانی سطح پر کیا ہو، صحافتی سطح پر کیا ہو، کون سے کام اہل اردو کو خود انجام دینے ہوں گے ، کون سے حکومتوں  اور سرکاری اداروں سے کروانے ہوں گے وغیرہ۔
یہاں چند کاموں کا ذکر کیا جاتا ہے:
(1) اردو کی تدریس کو بہتر بناناوقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ کلاس رومس میں بہتر انداز میں اردو پڑھائی جائے، صحیح اردو پر اصرار ہو، طلبہ میں اردو کا شوق و ذوق پیدا کیا جائے ،انہیں کلاسیکی شعرا و ادبا سے روشناس کرایا جائے خواہ اُن کا نصاب میں تذکرہ ہو یا نہ ہو ، اردو کی اچھی کتابوں کی معلومات ان تک پہنچائی جائے، انہیں الفاظ اور اشعار یاد کرنے کی ترغیب دی جائے، ان میں لغت دیکھنے کا شعور پیدا کیا جائے اور اس کی عادت ڈلوائی جائے اور ایسی  ہر سر گرمی کا ان میں جذبہ پیدا کیا جائے جو انہیں  اردو کا سپاہی بنا سکے۔
(2) اردو زبان کی تدریس کا فریضہ انجام دینے والے اساتذہ کو اپنی ذمہ داریوں کے تئیں حساس بنانے کے لیے اردو کے سرکردہ ادارے کوئی ایسا پروگرام  مرتب کریں جس سے تدریسی  عمل زیادہ مؤثر ہوسکے۔
(3)  اردو کی تدریس ہی کے سلسلے میں یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اہل اردو علاقائی یا ریاستی  سطح پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دیں جن کی ذمہ داری یہ معلوم کرنا ہو کہ کن اداروں میں اردو کی تعلیم و تدریس کا کیا حال ہے۔ جن اداروں میں اُمید افزا صورت حال ہو، کمیٹی ان کی خدمات کی ایماندار انہ تائید کرے اور اُن  کی حوصلہ افزائی کرے۔
(4) اگر یہ طے ہے کہ غیر ادبی مشاعروں کو روکانہیں  جاسکتا ہے تو ادبی محفلوں کو فروغ دیا جائے اور اخبار میں اعلان شائع کروانے پر اکتفا کرنے کے بجائے یہ زحمت بھی اٹھائی جائے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت کو یقینی  بنانے کے لئے جدید ذرائع ابلاغ خاص طور پر سوشل میڈیا کا استعمال  کیا جائے ۔
(5) ان لوگوں کو اردو کا اثاثہ سمجھا جائے جو اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے لیکن اردو انہیں  بھلی معلوم ہوتی ہے اس لئے وہ اس زبان سے محبت کرتے کہیں ۔ ان  کے ذریعہ بھی اردو کو دیگر زبانوں کے لوگوں میں عام کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہےجس کیلئے یہ بہی خواہان اردو ، اپنی خدمات ضرور پیش کریں گے۔
(6) اردو ویب سائٹس ، اردو ای میل ، اردو بلاک ،اردو ای بک، اردو ای میگزین اور ایسی ہی  جدید سہولتوں سے اردو کیلئے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں لیکن  اب تک اردو کو دیگر زبانوں جیسی تکنیکی تقویت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔تکنیکی ماہرین کی ایک ‘‘اسپا نسرڈ ٹیم ’’ کو یہ کمی دور کرنے پر مامور کیا جاسکتا ہے۔
(7) اردو اصطلاحات و متبادلات پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ نہیں  ہوسکتا کہ ہم دیگر  زبانوں بالخصوص انگریزی  کے الفاظ دھڑلے سے قبول کرتے چلے جائیں اور اپنی عدم توجہی  یا تن آسانی کو اردو کی فراخدلی  کا نام دیں۔
(8) اردو  کے ناموراد ادیبوں  اور شاعروں کی تخلیقات کونئی تکنالوجی کے ذریعہ عام کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ دیگر زبانوں  کے لوگ سن کر یا دیکھ کر اردو  کی طرف راغب ہوں اور اس زبان سے محبت کرنے والے بن جائیں۔
(9) برقی ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اردو کے غلط استعمال کی جانب سے خاموشی ٹھیک نہیں ۔ اس کےلئے متعلقہ اداروں کو متوجہ کرنا اور انہیں حساس بنانابھی  اہل اردو کی ذمہ داری  ہے ۔ کاش، اردو الے ‘‘ جذبات کو جذباتوں’’ ....... ‘‘مخالفت کو خلافت’’  اور ‘‘علماء کو علماؤں ’’ کہنے والوں کو دل سے بُرا کہنے کےساتھ ساتھ تھوڑی بہت عملی کوشش بھی کرتے! برقی ذرائع ابلاغ سےپہلے اس جانب خود اہل اردو کی توجہ مبذول کرانابھی ایک کام ہے تاکہ اُن میں مثبت رد عمل کی ضرورت  کا احساس پیداہو۔
(10) اردو کے اُن غیر ملکی اداروں  کی پزیرائی  ضروری ہے جو اردو کے فروغ میں نمایاں  کردار ادا کررہے  ہیں مثلاً بی بی سی اردو ، وائس آف امریکہ، وائس آف جرمنی ( ڈچیز ویل/ ڈی ڈبلیو)  ،وائس آف جاپان ( این ایچ کے ورلڈ ) ،وائس آف رشیا ( صدائے روس) وغیرہ۔
مجھے امید ہے کہ اردو کی قد آور شخصیات کی موجودگی میں یہ سہ روزہ سیمینار  اردو کی عالمی  ترویج  و ترقی اور اکیسویں  صدی  میں اردو کے سماجی و ثقافتی فروغ کاوہ لائحہ عمل مرتب کرنے میں کلیدی کردار  ادا کرے گا نیز اہل اردو کو یہ پیغام دے گا کہ رونا رونے کے بجائے ٹھوس عملی اقدام ہر اُس شخص کی ذمہ داری  ہے جو اس زبان سے محبت  کا دعویٰ کرتا ہے۔
25 جنوری، 2015  بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی

No comments:

Post a Comment