Monday, February 2, 2015

Muslims Should Approach All Politicians in Power مسلمانوں اپنی شکایات کے ازالے کے لئے بر سر اقتدار تمام سیاستدانوں سے رجوع کرنا چاہئے

















 نیو ایج اسلام کے لیے خصوصی نامہ نگار
نئی دہلی، 30 جنوری 2015
 ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم اسکالرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیخ ابو بکر نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنی حالت زار کے لئے حکومتوں پر الزام لگانے سے باز آنا چاہیے اور ایک مہذب زندگی اور روشن مستقبل کے لئے موثر حکمت عملی وضع کرنے کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتوں کو ہمیشہ احترام سے نوازا جانا چاہیے خواہ وہ بی جے پی کی حکومت ہو یا کسی دوسری پارٹی کی حکومت ہو۔
 "ہمیں اپنے مسائل حل کرنے اور اپنی داد رسی کے لئے بی جے پی حکومت سے رجوع کر میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ مسلم کمیونٹی کے علماء اور معزز لوگوں کو اپنے مسائل پیش کرنے کے لیے، اس سے قطع نظر کے کون سی پارٹی برسر اقتدار ہے، کھلے ذہن کے ساتھ اپنے ملک کے وزیر اعظم سے ملاقات کرنا چاہیے"۔ موصوف نے مزید کہا "جناب نریندر مودی ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم ہے ہمیں ان کے اس عظیم عہدے کا احترام کرنا ضروری ہے۔"
 شیخ ابو بکر نے کہا "حکومت کے متعلقہ لوگوں کو اپنے مدارس کے نصاب اور درسی کتب کی تفصیل پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اپنے حکام کے سامنے چیزوں کی وضاحت پیش کرنا ہمارا فریضہ ہے۔
 آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے جنرل سیکرٹری، مولانا سید محمد اشرف نے کہا کہ " مسلمانوں کو اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے والے کارٹون اور ڈرائنگ سے کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیےاس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تصویر نہیں پیش کی جا سکتی"۔ موصوف نے میڈیا میں اسلام کے انتہا پسندی کے ساتھ جوڑے جانے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ: "ہمیں سیاست سے متاثر 'اسلام پسندوں' سے مسلم نوجوانوں کو دور رکھنا ہو گا اور اسلام کے ان اصل مجرموں کو پہچاننا ہو گا جو اسلاموفوب سے کہیں زیادہ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔"
 اتحاد ملت کونسل کے صدر مولانا توقیر رضا خان نے کہا کہ امت کے اندر اختلاف و انتشار کے ذمہ دار خود مسلمان ہی ہیں۔ انہوں نے ایک کھلے ذہن کے ساتھ مسلمانوں کے زوال کے اسباب کا ادراک کرنے کے لیے کہا۔ "آج مسلمان دوسروں کے حقوق کی خلاف ورزی، لوگوں کا غلط استحصال اور دوسروں کے سرمایہ کو غصب کرنے جیسی برائیوں اور غلط کاموں کا شکار ہیں۔" موصوف نے کہا کہ نے علماء اور مدارس نے اگر اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام نہیں دیا تو انہیں امت مسلمہ کے سماجی زوال کے لئے جوابدہ مانا جائے گا۔
دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں کل ہند جمعیت علمائے اہلسنت والجماعت کی جانب سے "علماء ہند کا مشاورتی اجلاس" کے عنوان سے منعقد کیے گئے اس کانفرنس میں علماء و مفکرین نے تعمیری اور خود احتسابی پر مبنی خیالات و نظریات کا اظہار کیا۔ مسلم علماء و مفکرین کے اس اجلاس میں ملک بھر سے کافی تعداد میں صوفی سنی مسلم علماء کرام اور دانشوروں نے شرکت کی جن میں سے اکثر کیرل، اتر پردیش اور خود دارالحکومت دہلی سے ہی تعلق رکھنے والے تھے۔ انہوں نے ہر شعبے میں ہندوستانی مسلم کمیونٹی کی ترقی و خوشحالی کے لئے جد و جد کرنے کے لئے متحد ہونے کے اسباب و علل پر غور و فکر کیا۔ اس کانفرنس میں مسلم طلباء اور خاص طور پر مدارس کے فارغین کے اندر تعلیمی اور فکری بیداری پیدا کرنے پر خاص توجہ دی گئی۔ علماء اور اہل علم شخصیات نے قومی، برادری اور بین الاقوامی مسائل اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کے حالات میں بہتری پیدا کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر غور و فکر کیا۔








 جمعیت علماء اہل سنت و جماعت ملکی سطح پر ایک سنی صوفی مسلم تنظیم ہے جس کا بنیادی مقصد تعلیم، سماجی احیاء اور ہندوستانی مسلمانوں کی افرادی قوت کو فروغ دینا ہے۔ اس کی بنیاد ملک و بیرونی ملک میں مشہور و معروف سنی علماء اور دانشوروان کی موجودگی میں رکھی گئی تھی جن میں شیخ ابو بکر احمد بانی اور چانسلر مرکز الثقافہ السنیہ، کوزیکوڈ (کیرل)، پروفیسر سید محمد امین میاں قادری، سجادہ نشین خانقاہ مارہرہ شریف اور خانقاہ رضویہ، بریلی، یوپی کے سرپرست اور اہل سنت کے مفتی اعظم مفتی اختر رضا خان الازہری قابل ذکر ہیں۔
 مسلم دنیا میں مقبول ابو الایتام (یتیموں کے والد) کے نام سے مشہور جنوبی ہندوستان کے عظیم عالم دین، ماہر تعلیم اور سماجی کارکن شیخ ابو بکر احمد اس وقت آل انڈیا مسلم اسکالرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے علماء کرام کے اس اجلاس کے مقاصد اصلیہ کو بیان کیا اور ناظرین کے سامنے پیش کی گئی اپنی تجاویز کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ موصوف نے کہا کہ آل انڈیا مسلم اسکالرز ایسوسی ایشن (AIMSA) نئے چیلنجز سے نمٹنے اور مسلمانوں پر عائد ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے مقصد سے جنوبی ہندوستانی مسلم کمیونٹی میں اچھی طرح سر گرم عمل ہے۔ لیکن ملک کے دیگر حصوں میں خود کی پیدہ کردہ مسلمانوں کی حالت زار کے پیش نظر ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ ایسوسی ایشن ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی اور خاص طور پر یوپی، بہار، مغربی بنگال، تامل ناڈو، گجرات اور دہلی میں ایک بڑی تعداد میں اپنی یونٹس قائم کرے گی ۔
 پارٹی کی نوعیت سے قطع نظر، وزیر اعظم کے عہدے کا احترام کرنے اور اپنی شکایات کے ازالے کے لئے بر سر اقتدار پارٹی سے رجوع کرنے کے لیے مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے شیخ ابو بکر نے مدارس کے اصلاحات جیسے اہم مسائل پر بھی گفتگو کی اور خاص طور پر مدارس کے نصاب اور ان کتابوں کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا جن کے بارے میں بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی بیج بو رہی ہیں۔ موصوف نے کہا کہ اگر واقعی علماء اپنے مدارس کے بارے میں غلط فہمیوں اور پروپگنڈوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو وقت آ چکا ہے کہ تمام علماء حکومت کے سامنے چیزوں کی وضاحت پیش کریں۔
 حکومتی اداروں اور نمائندوں کے سامنے مدارس کی نصابی کتابوں کی تفصیلات پیش کرنے کی ضرورت پر شیخ ابو بکر نے اپنے ایک ذاتی تجربے کا ذکر کیا۔ انہوں نے گجرات کے وزیر اعلی جناب نریندر مودی اور سابق وزیر اعظم مسٹر اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا حوالہ پیش کیا۔ "جب مدارس کے نصاب کے بارے میں تنازعہ کافی بڑھ گیا اس لیے کہ اسے دہشت گردی نظریہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا تو میں نے ذاتی طور پر مسٹر واجپائی سے ملاقات کی اور ان کے سامنے اپنے مدارس کے کتابوں اور خاص طور پر "دروس اسلام" کی مکمل سیریز کا مواد پیش کیا، جو کہ کیرل میں ہمارے مرکزی اسلامی ادارہ مرکز الثقافہ السنیہ کے ساتھ وابستہ تمام مدارس میں پڑھایا جاتا ہے، تو اس پر جناب واجپائی نے نہ صرف یہ کہ ان درسی کتابوں کی توثیق کی بلکہ ہمارے مدارس کے نصاب میں پائی جانے والی امن، سماجی سالمیت، عالمی بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کی تعلیمات پر اپنی خوشی کابھی اظہار کیا۔ اسی طرح ہمارے وزیر اعظم، مسٹر مودی بھی ہمارے مدارس کی نصابی کتابوں سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔ جب تک ہم حکومت کے سامنے تمام چیزوں کو واضح نہیں کرتے ہم ان سے مکمل اطمینان کا مطالبہ نہیں کر سکتے"۔
 جدید اور مذہبی تعلیم کے امتزاج پر ، شیخ ابو بکر نے کہا کہ "جدید اور اسلامی اخلاقی تعلیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے ، ہماری نوجوان نسل بے اعتقاد ملحدوں اور خود غرض جدت پسندوں کی گرفت میں آ رہی ہے اور اس طرح آسانی کے ساتھ اخلاقی برائیوں کا شکار ہو رہی ہیں۔ "ہمارے نوجوانوں کا زندگی کے نیک راستوں سے ہٹنا اور گمراہی کا شکار ہونا انتہائی افسوس ناک بات ہے۔
جنوبی ہند کے مرکزی سنی اسلامی ادارہ مرکز الثقافہ السنیہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اے پی عبدالحکیم الازہری نے مسلم عوام کے لیے اعلی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا۔ موصوف نے کہا کہ "طویل مدتی مقاصد کے حصول کے لیے سماجی و ثقافتی اور تعلیمی قابلیت انتہائی ضروری ہے اور اس وجہ سے ہم نے ملک بھر میں مسلم عوام کے لیے ایک بہت بڑے تعلیمی منصوبے کا آغاز کیا ہے"۔ "ہم نے کامیابی کے ساتھ (دریا گنج، دہلی، انڈیا کے)اسلامی بورڈ آف ایجوکیشن کے زیراہتمام کئی سو پرائمری سے لیکر ثانوی سطح کے تعلیمی اداروں کا قیام کیا ہے اور مختلف شمالی ہندوستانی ریاستوں اور خاص طور پر آسام اور دیگر شمال مشرقی خطوں میں مساجد اور تعلیمی مراکز کا قیام کیا ہے۔"
اسلامی ایجوکیشنل بورڈ آف انڈیا کی کامیابیوں کی تفصیلات پیش کرتےہوئے ، ڈاکٹر الازہری نے کہا کہ: "پہلے سے ہی ہمارے جامعہ مرکز میں 22 ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں، کیرل کے 16 اضلاع میں 4 سو پرائمری اور ہائر سیکنڈری اسکول ہیں، اور پورے ملک میں 7 ہزار مدارس ہیں جن میں 3 لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں میں ہمارے ہزاروں مدارس، مساجد اور تعلیمی مراکز، یتیم خانے اور غریب گھر ہیں۔ "اسلامی ایجوکیشنل بورڈ آف انڈیا، جامعہ مرکز الثقافۃ، ریلیف اینڈ چیرٹیبل فاؤنڈیشن آف انڈیا، نارتھ ایسٹ سنی ویلفیئر کونسل اور سنی یوواجنا سنگھم کا اس عظیم تعلیمی منصوبے کو عملی شکل دینے میں ایک اہم کردار ہو گا۔
اسلامی ایجوکیشنل بورڈ آف انڈیا کے ڈائریکٹر، مولانا شاہ الحمید نےکہا کہ ' حق تعلیم مسلمانوں کا ایک آئینی حق ہے لہٰذا نہیں تعلیم کے شعبے میں آگے آنا چاہئے۔ "موصوف نے تفصیل کے ساتھ بورڈ کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس کے بنیادی مقاصد میں: " نوجوان نسل کو اسلامی ثقافت اور ورثے سے آگاہ کرنا، انہیں سنی صوفی اسلامی علماء کی تعلیمات پر مبنی اسلامی عقیدے کے حقیقی اقدار کی تعلیم دینا، ان کے اندر ہم آہنگی اور رواداری کا جذبہ بیدار کرنا، انہیں آئینی ہدایات پر عمل کرنے والا امن پسند شہری بنانا، انہیں مخلوط ہندوستانی سماج کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کا عادی بنانا اور مادہ پرستی کے برے اثرات سے دور رکھتے ہوئے انہیں دنیا کی بے ثبات نوعیت سے آگاہ کرنا۔ جناب شاہ الحمیدنے کہا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہم تعلیمی تجدید و احیاء کے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جس کے ذریعے ہم اسلامی تعلیم اور تمدن کے سنہرے دور کا احیا کر سکتے ہیں۔
 شاہی مسجد فتح پوری کے نائب امام مولانا معظم علی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ علماء کرام کی یہ مجلس امۃ مسلمہ کے زوال اور انتشار کی وجوہات پر غور کرنے کا اچھا موقع جو کہ اس امت کی عدم مرکزیت کا نتیجہ ہے۔
اس کانفرنس کے آخر میں اسلامک بورڈ آف ایجوکیشن کے نصابی ڈائریکٹر مولانا احمد رضا برکاتی نے تمام شرکاء کے سامنے قرارداد پیش کیا جسے تمام لوگوں نے قبول کیا۔ قرارداد میں انہوں نے سختی کے ساتھ ملک میں فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا اور اسے انتہا پسندوں کا کارنامہ رقرار دیکر اس کی مذمت کی جو اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ملک کے آئین اور قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی حکومت کی جمہوری اور سیکولر ساخت کے تحفظ کے لئے ٹھوس علمی کوششوں کا بھی عہد کیا۔ قرارداد میں ہندوستانی شہریوں اور خاص طور پر مرکزی دھارے کے امن پسند مسلمانوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سماجی امن و آتشی کی حمایت کرنے اور انتہا پسند اور نفرت پھیلانے والے عناصر کے شیطانی منصوبوں کو ناکام کرنے کے لئے امن کے قیام اور اخوت کو فروغ دینے کی اپیل بھی کی گئی۔
 اس اجلاس کے بعد ایک عالمی میلاد کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں ترکی، جنوبی افریقہ اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں نے خصوصی مہمان کے طور پر شرکت کی۔ اور اس میں غیر ملکی اسلامی علماء بھی موجود تھے۔
آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے جنرل سیکرٹری، مولانا سید محمد اشرف نے کہا کہ " مسلمانوں کو اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے والے کارٹون اور ڈرائنگ سے کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیےاس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تصویر نہیں پیش کی جا سکتی"۔ موصوف نے میڈیا میں اسلام کے انتہا پسندی کے ساتھ جوڑے جانے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ: "ہمیں سیاست سے متاثر 'اسلام پسندوں' سے مسلم نوجوانوں کو دور رکھنا ہو گا اور اسلام کے ان اصل مجرموں کو پہچاننا ہو گا جو اسلاموفوب سے کہیں زیادہ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔" مسلم نوجونوں کو اسلامو فوب کے متعصب پراپیگنڈے کے خلاف مزاحمت کرنے اور نام نہاد "اسلام پرستوں" کی من گھڑت اسلامی تعلیمات کی تردید کرنے کے لئے خود کو بااختیار بنانا چاہئے۔ سید اشرف نے سامعین کو ہندوستانی علوم و فنون، ثقافت اور اس کے شاندار ماضی کی تعمیر کے لئے صوفیائے کرام کے تعاون کو تسلیم کرنے کی نصیحت کی۔ انہوں نے تاریخی میراث اور اسلامی باقیات کے تحفظ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اس اجلاس میں شریک ہونے والوں میں قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات کے سابق رکن جناب عبد علی عزیزی، جامعہ خواجہ قطب الدین کے بانی مولانا مقبول احمد مصباحی، مولانا غلام عبدالقادر حبیبی، نیشنل ادریسیہ فاؤنڈیشن کے چیئرمین جناب رئیس ادریسی، جناب غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام فاؤنڈیشن، حافظ محمد حسن، مولانا یوسف مصباحی، مولانا شوکت برکاتی اور جناب مشاہد رضا۔
 میلاد کے پروگرام میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شیخ ابو بکر نے مختلف فرقوں اور خاص طور پر ہندو اور مسلمان کے درمیان تنازعات ختم کرنے اور تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا میں رہنے والے ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر کمیونٹیز کو قومی یکجہتی اور ترقی کو فروغ دینے کے لئے مل جل کر قدم آگے بڑھانا چاہیے۔ اپنی تقریر میں ڈاکٹر عبدالحکیم الازہری نے کہا کہ تحریک یا احتجاج مسائل کا حل نہیں ہے؛ ہمیں دیانت دار تعلقات کو فروغ دے کر دل و دماغ کو جیتنے کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment