Wednesday, October 28, 2015

Imam Husain Inspires People Towards Excellence امام حسین نے لوگوں کو ناانصافی اور ظلم و ستم کو ختم کرنے کی ترغیب دی

 


قاسم اے معینی
24 اکتوبر 2015
سانحہ کربلا کے کئی صدیوں کے بعد بھی ، امام حسین کی ذات گرامی مختلف طریقوں سے دنیا بھر کے لوگوں کے لیے اب بھی تحریک و ترغیب کا مصدر و سرچشمہ بنی ہوئی ہے۔ در حقیقت آپ کی مقناطیسیت رسوم و رواج اور عقیدت مندی سے بڑھ کر ہے؛ یہ انسانی روح کی گہرایوں تک پہنچتی ہے اور انسانوں کے اندر بہتری پیدا کرتی ہے۔
اس بات کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح امام حسین نے لوگوں کو بہتری کی طرف قدم بڑھانے، بنی نوع انسان کے لئے ایک بہتر دنیا بنانے اور ناانصافی اور ظلم و ستم کو ختم کرنے کی ترغیب دی ہے۔ امام حسین کے متاثر کن مشن کا بیان جو انہوں نے عراق کے لئے روانہ ہونے سے پہلے دیا تھا- جس میں انہوں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے اموی حکومت کے خلاف قدم نہیں اٹھا رہے ہیں، بلکہ یہ پوری امت مسلمہ کی بہتری کے لئے ہے – ان لوگوں کے ناقص اور غلط الزامات کا جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ سانحہ کربلا ایک ذاتی اور سیاسی جنگ کا نتیجہ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ واقعہ کربلا کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے: بلاشبہ امام حسین نے حکومت بنو امیہ کے تحت امت مسلمہ کو ایک شاہی میراث میں تبدیلی کیے جانے کی مخالفت کی تھی۔ تاہم، وہ یزید جیسے ایک حکمران کے تحت امت مسلمہ کی روحانی اور اخلاقی پستی کے بارے میں فکر مند تھے۔ لیکن ہم حسینی جہاد کے روحانی اور عرفانی پہلوؤں کو کسی اور دن کے لیے چھوڑتے ہیں؛ اور ابھی اس بات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کس طرح امام حسین کی ذات بابرکات آج بھی لوگوں کے لیے تحریک و ترغیب کا مصدر و سرچشمہ ہے۔
اس بات کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح امام حسین نے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔
شاعروں اور اور قصہ نگاروں نے ہمیشہ اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ امام حسین اور ان کے خاندان کے بہت سے ارکان اور صحابہ کرام کو تین دنوں بھوکا اور پیاسا رکھنے کے بعد شہید کر دیا گیا تھا۔ در اصل، پیاس ہر قسم کی عزاداری میں ایک مرکزی علامت ہے۔ آج خاص طور پر برصغیر میں مختلف برادریوں کے لوگ ان شہیدان کربلاکی خشک ہونٹوں کی یاد میں سبیل لگاتے ہیں، اجنبیوں کو ٹھنڈا پانی، دودھ، شربت وغیرہ پیش کر کے دوسروں کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سبیل شہدائے کربلا کے ذریعہ پیش کردہ انسان دوستی کی روح کا صرف ایک مظہر ہے۔ امام حسین کی زندگی سے تحریک یافتہ بے شمار لوگوں بہتری پیدا کرنے کےلیے دنیا بھر میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کوششوں کی ایک کڑی ([Who is Hussain?] حسین کون ہیں؟) نامی ایک تحریک ہے۔ جس کی بنیاد 2012 میں لندن میں رکھی گئی تھی، یہ تحریک یورپ، شمالی امریکہ، خلیج، افریقہ اور برصغیر کے شہروں میں پھیل چکی ہے۔ اس کی بنیاد امام حسین کی تعلیمات پر ہے، اس لیے کہ "امام حسین نے ہمیں تقسیم کرنے والے القابات اور نام و نمود سے زیادہ مشترکہ انسانی اقدار کا خیال رکھا تھا"۔
خواہ وہ کراچی کے سوگوار جلوس میں گندگی اٹھانے والے، انگلینڈ میں ایک بین الاقوامی کرکٹ میچ میں مفت پانی کی بوتلیں تقسیم کرنے والے یا ترقی پذیر ممالک میں تعلیمی مقاصد کے لیے رقم اکٹھا کرنے والے رضاکار ہوں، ([Who is Hussain?] حسین کون ہیں؟) کے پیچھے جو لوگ کھڑے ہیں وہ امام حسین سےہی تحریک و ترغیب حاصل کرتے ہیں۔ اس اور دیگر ان عظیم سرگرمیوں سے اسلام کی اس حقیقی روح کی عکاسی ہوتی ہے جس کا حوالہ اکثر پیش کیا جاتا ہے، لیکن شاید ہی کبھی مسلم معاشروں میں یہ دیکھنے کو ملتا ہو- جو کہ ایک ایسی روح ہے جو حسینی جد و جہد کو جلا بخشی ہے۔
یہی مضبوط حسینی قوت ارادی عراق میں تقریب چہلم کے دوران بھی دیکھنے کو ملی۔ اربعین کا اجتماع روئے زمین کے سب سے بڑے انسانی اجتماعات میں سے ایک ہے؛ بی بی سی کے مطابق، گزشتہ سال کی تقریب کے لیے تقریباً 17 ملین لوگ عراق میں جمع ہوئے تھے، جنہوں نے کربلا تک کا جلوس نکالا تھا۔ اس کے باوجود اسی مضبوط حسینی قوت ارادی کے ساتھ عراقیوں نے - اپنے معمولی وسائل اور ملک میں دہشت گردی کے خطرات کے باوجود ان زائرین کی میزبانی کا ایک غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔
اکثر زائرین حضرت علی کی آرام گاہ نجف اشرف سے کربلا تک پیدل ہی چلنا پسند کرتے ہیں۔ نجف اشرف سے کربلا تک کی مسافت 80 کیلو میٹر ہے، جسے پیدل طے کرنے میں دو سے تین دن کا وقت لگتا ہے۔ تاہم، جو بات قابل ذکر ہے وہ عراق کی نازک صورت حال کے باوجود کربلا جانے والوں کے لیے مقامی لوگوں کی مہمان نوازی ہے۔
نجف سے کربلا تک پیدل سفر کرنے والوں کا کہنا ہےکہ یہ ان کے لیے زندگی تبدیل کر دینے والا تجربہ تھا۔ پورے راستے میں ہزاروں مواکت بنائے گئے تھے جہاں کربلا کے مسافروں کے لیے کھانے، آرام کرنے اور ان کے لیے طبی سہولیات کا انتظام کیا گیا تھا- اور وہ بھی بالکل مفت۔ یہ مالی اعتبار سے ایک بہت بڑا کام ہے، جبکہ زائرین اور میزبان دونوں کو یہ معلوم تھا کہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف عراق کی جنگ کے پیش نظر ان کی زندگیوں کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود امام حسین کی محبت ہی ایک ایسا اہم عنصر ہے جو لوگوں کو کربلا کی طرف کھینچتی ہے۔ در اصل ، کربلا الہی محبت کے ایک اظہار کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
مادہ پرستی، مایوسی اور شکوک و شبہات کے اس دور میں الہی محبت انسان کے لیے سب سے ضروری تریاق ہے، جو انسانوں کو ان کی مادی ضروریات سے اوپر اٹھ کر روحانی اور عظیم حقیقت کا احساس دلاتا ہے۔ اور بلا شک و شبہ کربلا الہی محبت کا ایک ثبوت ہے۔
جب لوگ ایک شامی فوج کے ہاتھوں امام حسین کے دکھوں اور پریشانیوں پر ماتم کرتے ہیں تو دل بیدار اور نرم ہو جاتا ہے اور بنی نوع انسان کے مصائب کو محسوس کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ در اصل ہر عاشورہ کے دن ہر زندہ اور حساس دل بیدار ہو جاتا ہے اور اس میں ایک نئی زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ انسان ایک فراموش کنندہ انسان ہے؛ شاید یہی وجہ ہے کہ الہی منصوبہ بندی یہ ہوئی کہ کربلا کو کبھی نہیں فراموش کیا جائے گا۔
بالآخر، امام حسین جرات، ایمانداری اور محبت کی نمائندگی کرتے ہیں، جو کہ عالمگیر اور ابدی اقدار ہیں۔

یہ مضمون 24 اکتوبر، 2015 کو ڈان میں شائع ہوا تھا
ماخذ:
dawn.com/news/1215149/who-is-husain

No comments:

Post a Comment