Friday, May 15, 2015

Legal View related to Namaz in Archaelogicla Mosques آثار قدیمہ کی مساجد میں نماز کی پابندی سے متعلق قانونی جائزہ

Legal View related to Namaz in Archaelogicla Mosques آثار قدیمہ کی مساجد میں نماز کی پابندی سے متعلق قانونی جائزہ








نیاز احمد فاروقی
14 مئی 2015
محکمہ آثار قدیمہ نے اپنے زیر انتظام مساجد میں نماز پڑھنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ملک میں ایسی سیکڑوں مساجد ہیں، صرف دہلی شہر میں 50 سے زائد ایسی مساجد ہیں جن کی حالت بہت تشویشناک ہے۔ ایک طرف ان کی بوسیدہ و خستہ حالت ہے تو دوسری طرف ان کی تقدس کی پامالی ہے ، جو کہ مساجد کے تئیں سرکاری تعصب اور عام شہریوں کی بے حسی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آثار قدیمہ ایکٹ 1958 ء اور اس کے بموجب بنائے گئے 1959 ء کے ضوابط جن کے تحت نماز پر پابندی عائد کی گئی ہے ۔ انہی قوانین اور ضوابط میں نماز اور عبادت کو مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ یہ سرکار او ر محکمےکی چپرہ دستی نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ استدلال کہ جس وقت آثار قدیمہ کے قبضے میں یہ مساجد آئیں، اس وقت ان میں نماز نہیں ہوتی تھی، اس لئے آئندہ بھی نماز نہیں ہوگی، بالکل لغو اور خلاف قانون ہے۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں ہم ذیل میں متعلقہ قوانین اور ضوابطہ کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے آثار قدیمہ ایکٹ 1958 ء سیکشن 5 ملاحظہ فرمائیں ۔ دفعہ 5 (1) مرکزی حکومت کی اجازت سے ڈائریکٹر جنرل کسی بھی محفوظ یاد گار کو خرید سکتا ہے یا ( کرایہ) پر لے سکتا ہے ، یا ہبہ کے طور پر قبول کرسکتا ہے یا بذریعہ وصیت پاسکتا ہے ۔ (2) جب کوئی محفوظ یادگار بغیر مالک کے ہو، ڈائریکٹر جنرل سرکاری گزٹ میں اعلان کر کے اس یادگار کی نگرانی کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے ۔ (3) کسی محفوظ یادگار کا مالک تحریری وثیقے کے ذریعے ڈائریکٹر جنرل کو محافظ بناسکتا ہے اور ڈائریکٹر جنرل مرکزی حکومت کی منظوری سےاس کی نگرانی کی ذمہ داری قبول کرسکتا ہے ۔ (4) جب ڈائریکٹر جنرل کسی یاد گار کی نگرانی کی ذمہ داری ذیلی دفعہ (3) کے تحت قبول کر لے تو مالک سوائے مستثنیٰ صورتوں کے جائداد کے انتظام و انصرام ، مالکانہ اور مداخلت کے حقوق اور ان تمام اختیارات کا مالک ہوگا ، جو محافظ کو حاصل ہوں گے۔ (5) جب ڈائریکٹر جنرل کسی آثار قدیمہ کی نگرانی کی ذمہ داری ذیلی دفعہ (3) کے تحت قبول کرلے، تو اس ایکٹ کی تمام دفعات جو سیکشن 6 کے تحت کئے گئے معاہدوں سےمتعلق ہیں ۔ ان تحریری معاہدوں پر لاگو ہوں گی، جو مذکورہ ذیلی دفعہ کے تحت کئے جائیں گے ۔ (6)اس دفعہ میں مذکور کوئی بھی چیز روایتی، مذہبی اعمال کے لیے آثار قدیمہ کے استعمال کو متاثر نہیں کرے گی ۔ مذکورہ دفعہ (5) کی ذیلی دفعہ (6) صراحتاً ظاہر کرتی ہے کہ محکمۂ آثار قدیمہ کی تمام مساجد میں مسلمانوں کو نمازیں پڑھنے کا قانونی حق ہے، مسلمانوں کو ان مساجد میں پنچ وقتہ نمازیں پڑھنے کے حق سے محروم کرنا آثار قدیمہ کے قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محکمۂ آثار قدیمہ کی طرف سے قدیم عمارتوں کی نگرانی و نگہ داشت کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ ان عمارتوں میں وہ مشاغل نہیں ہوسکتے ہیں، جن کے لیے یہ تعمیر ہوئی ہیں ۔ اس کا اختیار صرف تحفظ کرنے کا ہے نہ کہ اس کا مصرف بد ل دینے کا ۔ دفعہ (5) کے جائزے کےبعد ہمیں 1959 ء کے ضوابط نمبر 7 اور 8 کا بھی جائزہ لینا چاہئے ۔
ضوابطہ نمبر 7۔ آثار قدیمہ کی میٹنگ وغیرہ کا انععقاد ۔(1) کسی بھی محفوظ یادگار کا استعمال مرکزی حکومت کی تحریری منظوری اور اجازت کے بغیر کسی اجلاس ، استقبالیہ، پارٹی، کانفرنس یا تفریحی مشغلے کے لئے نہیں کیا جائے گا۔ (2) ذیلی دفعہ (1) میں مذکورہ ضابطہ مروج مذہبی اعمال یا دستور رواج کے بموجب منعقد کیے جانے والے کسی اجلاس، استقبالیہ ، پارٹی ، کانفرنس یا تفریحی پروگراموں پر لاگو نہیں ہوگا ۔
ضابط نمبر 8۔ آثار قدیمہ میں مخصوص اعمال کی مناہی ۔ کسی بھی آثار قدیمہ میں کوئی بھی شخص درج ذیل اعمال نہیں کرے گا: (الف) کوئی ایسا عمل جو آثار قدیمہ کے کسی جزو کونقصان پہنچانے والاہو ۔(ب) کسی بھی اسلحہ کا استعمال ۔ (ج) سوائے مجوزہ مقامات کےکسی جگہ کھانا پکانا یا کھانا (د) آثار قدیمہ کے افسران کے ذریعہ لائینسن کی مجوزہ شرائط کےبغیر کسی بھی سامان کا خرد و فروخت یا اسے مشتہر کرنا یا کسی شکل کا اشتہار لگانا یا پیسے کے لیے زائرین کو گھمانا ۔ (ہ)بھیک مانگنا ۔ (و) آثار قدیمہ میں کیے جانے والے یا اس سے متعلق مروج دستور ، رواج یا عمل کی خلاف ورزی کرنا ۔ ( ز) آثار قدیمہ کی مرمت کے مقصد کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے عمارت کے اندر درج ذیل کا لانا : جانور (اول) (دوم) پارکنگ کے لیے مخصوص جگہ کے علاوہ کسی گاڑی کا لانا۔
مذکورہ ضوابط : 7 اور 8 کے مطالعہ سے صاف واضح ہوتا ہے کہ آثار قدیمہ کی کسی عمارت میں صرف وہ اعمال ممنوع ہیں، جن سے عمارت کو نقصان پہنچنے کااندیشہ ہو۔ جب ان اعمال و عبادات کی ہر گز مناہی نہیں ، جن کے لیے ان عمارات کی تعمیر ہوئی، بلکہ یہ بات بار بار واضح کی گئی ہے کہ عبادات او رمذہبی عمل کی کوئی مناہی نہیں ہوسکتی ۔ رہا سوال کہ ایسے واضح قوانین کے ہوتے ہوئے محکمۂ آثار قدیمہ کیوں کر نماز پر پابندی عائد کئے ہوئے ہے؟ مختلف تنازعات اور مقدمات کے حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ محکمۂ آثار قدیمہ کے دو دلائل ہیں : (1) جس وقت محکمے نےان مساجد کو اپنے قبضے میں لیا، اس وقت وہاں نماز ادا نہیں ہوتی تھی ، اس لیے وہ جگہ مسجد نہ رہی ، بہ الفاظ دیگر وہ وقف کی جائداد نہ رہی ۔ (2) صرف جائداد کامالک جائداد پر نماز ادا کرنے کا مستحق ہے۔
آثار قدیمہ کے مذکورہ بالا دونوں دلائل بے بنیاد ہیں، کیونکہ وقف کی دفعہ (3) کے مطابق کسی بھی جائداد کا کسی بھی مدت کے لیے ترک استعمال وقف کی حیثیت کو نہیں بدلتا ہے۔ نیز جو جگہ ایک بار مسجد بن گئی ، وہ ہمیشہ اسلامی شریعت میں مسجد ہی رہتی ہے ۔ جہاں تک صرف مالک کے نماز کےاستحقاق کا سوال ہے ، دفعہ (5) اور ضابط 7 اور 8 کے مطالعہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے۔ قانون کے متن کے جائزے کے بعد جب ہم عدالتی نظائر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو انہیں بھی مسلمانوں کے موقف کا حامی پاتےہیں ۔ اس سلسلے میں مسجد مونٹھ میں پنچ وقتہ نماز سے متعلق جناب بھولا دت سب جج کا 26 اگست 1985 کا فیصلہ قابل ذکر ہے ، اس تاریخ ساز فیصلے میں فاضل جج نے کہا کہ ‘‘ میں نے ان تمام کاغذات سرکاری ٹوٹیفکیشن کو بغور پڑھا جس میں اس مسجد کو قومی یادگار کے بطور تحفظ فراہم کیا گیا ہے، مگر مرکزی حکومت کو اس قانون کے تحت جو اختیار ات دیئے گئے ہیں، ان کے تحت اس کو کہیں یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ان محفوظ عمارات کے روایتی مذہبی استعمال پر اثر انداز ہوسکے ۔ اس ایکٹ کا سیکشن (5) اس بات کی صاف صاف وضاحت کرتاہے کہ اس سیکشن کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہوگی، جو ان محفوظ یادگاروں کے روایتی مذہبی استعمال پراثر انداز ہوسکے ۔ اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اگر متنازع جائداد کو 1906ء کے ایکٹ کے تحت محفوظ یاد گار قرار دے بھی دیا جائے ، تو بھی مسلمانو ں کا مسجد میں اپنی مذہبی رسوم کی بجا آوری کرنے، دین کی تبلیغ کرنے پر نہ تو پابندی لگائی جاسکتی ہے نہ ہی رکاوٹ ڈالی جاسکتی ہے ۔ مذہبی عقائد کی پیروی   اور مذہبی عبادات کی انجام دہی کا حق قومی یادگار کےتحفظ کے نام پر نہیں چھینا جاسکتا ۔ اگر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ کسی سبب سےمسلمانوں نے مسجد کو کچھ عرصے تک نماز پڑھنے کے لیے استعمال نہیں کیا تو اس سے بحیثیت مسجد اس کا وجود ختم نہیں ہوجاتا او رنہ ہی اسلامی قانون کے مطابق مسلمانوں کے باجماعت عبادت ادا کرنے کے حق میں فرق آتا ہے، جب ایک مرتبہ کسی جگہ کو مسجد قرار دے دیا جاتا ہے تو وہ جگہ مستقل طور پر مسجد کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے اور مسجد میں عبادت کرنے کا قانونی حق ہے اور اگر اس حق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو مسلمانوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کریں’’۔
قانون اورعدالت کے علاوہ اسلامی شریعت کے حوالے سے جب ہم اس موضوع پر نظر ڈالتےہیں تو اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ آثار قدیمہ کی مساجد میں نماز پڑھنا ہمارا شرعی حق ہے ۔ مساجد اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں، ان پر کسی کا قبضہ نہیں ہوسکتا ۔ محکمۂ آثار قدیمہ نے جن مساجد پر قبضہ کر رکھا ہے وہ خلاف شرع ہے ۔ محکمہ پر لازم ہے کہ جن پر ان کاقبضہ ہے ، ان تمام مساجد کو مسلمانوں کے حوالے کرے۔ مساجد کی تعمیر عبادت کے لیے ہے۔ انہیں قومی یادگار کے طور پر رکھنا اور ان میں نماز پڑھنے سے روکنا خلاف شرع عمل اور مداخلت فی الدین ہے۔ تمام ملت مسلمہ کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مساجد کی بازیابی کے لیےہر ممکن قانونی اور جمہوری جد و جہد کریں ۔
14 مئی 2015 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی

No comments:

Post a Comment