Saturday, January 24, 2015

Am I Right,or Not? عدل، یالا

Am I Right,or Not? عدل، یالا


حسین امیر فرہاد
عدل یالا ۔ عدل یالا کا  معنی تو ویسے یہی ہے ‘‘ انصاف یا نہیں ’’ لیکن یہ اس لئے بھی استعمال ہوتاہےمیں ٹھیک کہہ رہا ہوں یا نہیں؟ میری بات درست ہے یا نہیں ۔ اور کچھ لوگوں نے یہ تکیہ کلام بھی بنالیا ہے۔ منصر صالح گدھے کا مال اور ربیع بن مبارک کھیتی کا مالک آپس میں جھگڑپڑے بات یمن کی ہے۔ یہاں تک کہ معاملہ قاضی کے پاس عدالت تک پہنچ گیا ، قاضی نے منصر سے پوچھا معاملہ کیا ہے لما ذا مشاجرہ بینکم کیو ں جھگڑرہے ہو تم دونوں آپس میں ؟ ۔ منصر یعنی گدھے کے مالک نے کہا یا سعادۃ قاضی اے جناب اعلیٰ قاضی اس نے میرے گدھے کو ماراپیٹا اور گالیاں دیں ۔ قاضی نے ربیع سے پوچھا کہ تم کیا کہتے ہو؟ ۔ اس نے کہا جناب عالی اس کے گدھے نے میرے کھیت میں گھس کر بطیخ ( تربو ز) برباد رکردیئے۔
قاضی نے پھر منصر سے پوچھا ، کہ تم کیا کہتے ہو اپنے اور گدھے کے دفاع میں ؟۔ منصر نے کہا۔
 یا سعادۃ قاضی اے جناب اعلیٰ قاضی افرض انک حماری فرض کرلیجئے کہ آپ میرے گدھے ہیں۔قاضی نے چیں بہ جبین ہو کر کہا کیا بک رہے ہو؟ میں تمہارا گدھا ہوں ۔ لا حول ولا.......منصر نے کہا اللہ نہ کرے افرض مثلاً  فرض کر لیجئے مثال دے رہا ہوں کہ آپ میرے گدھے ہیں۔ عدل یالا ٹھیک ہے یا نہیں۔
قاضی با دل ناخواستہ کہا عدل ٹھیک ہے تاکہ وہ بات کو آگے بڑھائے۔ کیونکہ بات آگے نہیں بڑھ رہی تھی ۔
منصر نے کہا میں نے آپ کو پہلے گھاس اور پھر جَو کھلائی  عدل یالا ٹھیک ہے یا نہیں؟۔ بات تو ٹھیک نہیں تھی مگر قاضی نے کہا چلو ٹھیک ہے ۔ عدل ۔آگے بتاؤ کیا ہوا۔منصر نے کہا پھر میں نے آپ کو بالٹی میں پانی پلایا عدل یالا ٹھیک ہے یا نہیں۔قاضی نے کہا ٹھیک ہے ،آگے بتاؤ ۔ منصر نے کہا پھر میں نے آپ کی کمر پرپالان ڈالا اور اچک کر میں آپ کے کمر پر بیٹھ گیا  عدل یالا ۔ٹھیک ہے یا نہیں۔قاضی کو بہت برا لگا مگر کہا چلو ٹھیک ہے آگے بکو۔ منصر نے کہا جب ہم کھیتوں والے راستے پر رواں تھے تو میرے پیٹ میں مروڑ سا پڑا ، وہاں میں اتر کر کھیتوں میں گھس گیا ، آپ کو پتہ ہے صبح کوئی کھیتوں میں  کس لئے جاتاہے ؟ ۔ عدل یا لا اور قاضی صاحب آپ ربیع کے کھیت میں گھس گئے اور اس کے تربوز برباد کرنے لگے ۔ غلطی تیری ہے یا میری کیونکہ میں نے تو تمہیں گھر سے کھلا پلا کر ہانکا تھا۔
قاضی نے کہا یخرب بیتک یا منصر تیرا گھر برباد ہوجائے اے منصر من الاول الیٰ آخر۔ ابتداء سے لے کر اب تک تیری کوئی بات معدل ( درست) اور معقول نہیں تھی میں تو ویسے ہی کہہ رہا تھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے عدل عدل۔ تاکہ تو بات  کو آگے بڑھائے۔
منصر صالح کا یہ پورا قصہ اس لئے سنایا کہ آج کل جھگڑا جو چل رہا ہے ۔ دھرنوں اور انقلاب کاکہ اس کو ختم کیا جائے۔ یہ عدل یا لا کی کسوٹی پر درست نہیں ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ الیکشن ہوئے آپ حضرات نے کہہ دیا تھا کہ قبول ہے قبول ہے قبول ہے ، اب اگر نکاح ہی ناجائز ہوا تو پھر بچے جائز کیسے ہوسکتے ہیں۔ اس  طرح تو بات پہنچے گی نئے نکاح تک۔ یعنی دوبارہ الیکشن تک ؟ عدل یالا ۔ درست کہہ رہا ہو  ں یا غلط؟ ۔
ہم سے پوچھا جائے تو معاملہ تو منصر صالح کے معاملے کی طرح ابتداء  سےدرست نہیں ہے۔ اوّل تو جمہوریت کو لیجئے ۔ جو یونانی نژاد ہے جس کے متعلق اللہ کا بڑا واضح ارشاد ہے۔ وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ (6:116) ( اے نبی) اگر تم اکثریت کے پیچھے چلو گے تو زمین پر اکثریت تو گمراہ لوگوں کی ہے یہ تمہیں بھی گمراہ کر دینگے۔ اس آیت کے تناظر میں جمہوریت کا تو دین سے کوئی واسطہ نہ رہا لہٰذا رجال دین سے تو قع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس آیت کو بائی پاس کر کے کسی جمہوری نظام کاحصہ بنیں۔ بلاشبہ مغرب میں جمہوری نظام ہے اسی لئے مغرب ہمیں اپنے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے مگر اس ملت کے متعلق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی ؐ
میں درست کہہ رہاہوں یا غلط ۔ یعنی عدل یالا؟۔
برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں اکثریت نے اغلام بازی ( لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرنے) کو جائز قرار دیا ہے تمام دنیا بشمول ویٹیکن سٹی جو عیسائیت کا مرکز ہے اغلام بازی کو غیر فطری اور ناجائز سمجھتی ہے تو سمجھتی رہے جمہوریت نے اسے جائز قرار دے دیا ہے۔ یہ ہیں جمہوریت کے میوے۔ عدل یا لا ۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں یا نہیں؟
 دوسری چیز ہے پارٹی بازی  گروہ بندی یا فرقہ بندی وغیرہ۔ اللہ نے پارٹی بازی فرقہ بندی کو شرک قرار دیا ہے۔ فرمایا۔ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (30:31:32) دیکھو کبھی مشرک نہ بننا، مشرک وہ ہوتے ہیں جو دین  میں فرقے بناتے ہیں ، شیعا یعنی طائفہ SECT, GROUP, FACTION, PARTY ۔ یہ فرقے او رپارٹیاں ایک ہی چیز ہے آگے رب نے وضاحت فرمائی۔  کُلّ حِزب۔ ہر پارٹی اسی ٹکڑے پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے ۔ حالانکہ اسلام تو پورا پہناوے کا نام تھا۔ مگر یہاں کسی کے ہاتھ جیب لگی کوئی کالر کو تھامے ہوئے ہے، کسی کاآستین پر قبضہ ہے ، تو کوئی دامن لئے پھرتا ہے ۔ اور اسی پر خوش ہے۔ حالانکہ جس پوزیشن میں آج کا مسلمان زندگی گزاررہا ہے اس کے متعلق رب کا فرمان ہے۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ) (2:208) اے ایمان کے دعوایدار! دین میں داخل ہوجاؤ پورے کے پورے۔ ( فرقوں میں بٹنا تو شیطانی عمل ہے) شیطان کے نقش قدم پر مت چلو وہ تو تمہاراکھلا دشمن ہے ۔ فرقے کا ترجمہ لغت میں پارٹی ہے ، پارٹی پارٹ ٹکڑا کہلاتا ہے اور حزب اقتدار و حزب اختلاف تو آپ جانتے ہوں گے اس طرح  قرآن نے فرقہ بندی پارٹی بازی کو شرک کہا۔ نہیں سمجھے ...... پھٹے منہ اگر اب بھی آپ نہیں سمجھے۔
اس آیت کریمہ میں تو اللہ نے نبی سے ہمارا تعلق  ہی منقطع کردیا۔ إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ( 6:159) ( اور اے نبی) جنہوں نے دین میں فرقے بنا لئے تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں رہا ۔ لیکن ہمارے کسی مسلمان سے پوچھو کہ تم قرآن کی رو سے مشرک ہو؟ وہ جواب دے گا وہ اور ہیں جو فلاں فرقے سے تعلق رکھتے ہیں میں تو پانچوں وقت کا نمازی ہوں، پچھلے سال حج پر بھی گیا تھا اس سال دس لاکھ کا بیل قربان کیا۔
اللہ کی کتاب قرآن کریم سے دو پارٹیوں کا وجود ثابت ہے۔ ایک جزب اللہ جس کے متعلق ارشاد ہے۔ إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (58:22) یہی گروہ اللہ کا حزب (پارٹی) ہے ۔ جو فلاح پائے گا۔ دوسری پارٹی ہے شیطان کی أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ (58:19) اور وہ شیطان کی پارٹی ہے۔ حزب پارٹی ہی کو کہتےہیں جمع احزاب ہے اب یہ کام پارٹی والوں کا ہے کہ وہ ایک جگہ بیٹھ کر یہ فیصلہ کرلیں کہ کون سی پارٹی حزب اللہ کی کسوٹی پر پوری اترتی ہے۔ او رکون سی نہیں ۔ جب  یہ پتہ چل جائے تو پھر بڑی آسانی ہوجائے گی، باقی رہ جائیں گی حزب شیاطین ( شیطان کی پارٹیاں) اس سےمغربی دنیا ناراض تو ہوگی کہ یہ ساراکام سارا ڈھانچہ ان ہی کا کھڑا کیا ہوا ہے۔ مگر رب راضی ہوگا۔عدل یالا ٹھیک کہہ رہا ہوں یا نہیں؟
جس طرح یہ امید نہیں رکھی جاسکتی کہ کوئی دین جاننے والا جمہوریت کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہوسکتا ہے ، اسی طرح یہ امید بھی نہیں رکھی جاسکتی کہ کوئی دین جاننے والا مسلمان پارٹیوں میں بٹ سکتا ہے ۔ جس کو اللہ نے حکم دیا ہو  وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (3:103) اللہ تعالیٰ کی رسی ( قرآن ) کو مضبوطی سے تھامے رکھو فرقوں میں مت بٹ جانا) وہ بھلا پارٹیوں ، گروہوں ، ٹولوں اور احزاب میں کیسے بٹ سکتا ہے۔ مسلمانی  کو چھوڑ کر شرک کیسے اختیار کرسکتا ہے ۔ عدل یالا ؟کیوں میں ٹھیک کہہ رہاہوں یا غلط ۔ عدل یالا۔
ہاں اگر کسی کو ہوس و اقتدار نےاندھا کرڈالا ہو اور احکامات الہٰی اسے نظر نہ آتے ہوں تو وہ ان آیات کریمات کو پھلانگ بھی سکتا ہے۔ مگر پھر دین او ر نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہتا ۔ یہ ممکن نہیں کہ ستو بھی کھایا جائے  اور سیٹیاں بھی بجائی جائیں ۔ عدل یالا؟ کیو ں میں ٹھیک کہہ رہاہوں یا غلط؟
انسانوں کی بنائی ہوئی پارٹیوں میں تقسیم ہونا، کسی پارٹی کو ووٹ دینا یہ عہد کرنا ہے کہ وہ اس پارٹی کے منشور کو دل و جان سے مانتا ہے ۔ اللہ کے مقابلے میں انسانوں سے ایسا عہد کرنا شرک ہے۔ پھر امیدوار جو تقویٰ کی بناء پر نہیں کھڑا ہوتا ہے بلکہ دولت کو معیار بنا کر کھڑا ہوتاہے۔ جب کہ اللہ کا ترازو تقویٰ ہے۔  إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (49:13)
تم میں صاحب اکرام عزت والا  وہ ہے جو متقی ہے۔ متقی سے مراد وہ شخص نہیں جس کی تصویر عام آدمی کے ذہن میں ہے۔ یعنی ماتھے پر سجدے کا نشان لمبی داڑھی ڈھیلا ڈھالا کرتہ اور ایڑیوں سے بالشت بھر اٹھا ہوا پاجامہ یا تہمد ۔ متقی وہ ہے جو کوئلے کی کان میں سے سفید کپڑے بچا کر نکلے، جو کانٹے دار جھاڑیوں میں سے دامن بچا کر نکلے۔
پھر ووٹنگ کا طریقہ کار کہ پردے کے پیچھے جاکر مہر لگاؤ کسی ایک نشان پر باقی امیدو ارووں کو اندھیرے میں رکھو۔ دین کا تقاضا یہ ہے کہ جو اللہ کے ترازو پر پورا اتر ے بلا خوف و خطر اس کا اعلان کردو۔ عدل یالا کیوں ٹھیک کہہ رہاہوں یا نہیں؟
پھر اس الیکشن کے نتیجے میں ممبران کا چناؤ او راسمبلی میں مستقل طور پر حزب اقتدار کی نشستیں الگ و حز اختلاف کی نشستیں الگ ، ایک نہ ختم ہونےو الی جنگ کی ابتداء ہے جو اسی ایوان سے شروع ہوتی ہے ۔ حزب اقتدار جس معاملے کو جائز اور ضروری سمجھتی  ہے،اگر وہ حقیقتاً قوم کے مفاد میں ہو تب بھی حزب اختلاف اس سے اختلاف کرتی  ہے ۔ میزیں بجتی ہیں ، کرسیاں ٹوٹتی ہیں ، پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ روٹھ کر اسمبلی سے باہر  نکل جاتے ہیں پھر کچھ لوگ انہیں منا کر لاتے ہیں۔ جنہیں دیکھ  کر عوام پشیمان ہوتے ہیں کہ یہی وہ لوگ تھے جنہیں ہم نے اس ایوان میں بھیجا تھا؟ مگر یہ مغربی جمہوریت  کی دین ہیں ۔ عدل یالا ٹھیک ہے یا نہیں؟
یہ حکومتیں پانچ سال کے لئے منتخب ہوتی ہیں تاکہ عوام کے لئے کچھ کریں مگر پانچ سال کوئی بھی پورے نہیں کر پاتا ،نہ ہی عوام کے لئے کچھ کیا جاتا ہے وجہ یہ ہے کہ حزب اختلاف پہلے ہی دن سے یہ تہیہ کرلیتی ہے کہ نہ کھیلنا ہےنہ کھیلنے دینا ہے۔ اس طرح حزب اختلاف کی پوری توانائی حزب اقتدار  کو کرسی سے محروم کرنے میں صرف ہوتی ہے اور حزب اقتدار کی پوری  قوت کرسی کو بچانے او راپنے اقتدار کو طول دینے میں صرف ہوتی ہے۔ عوام کی طرف دھیان کون دے وہ گئے بھاڑ میں ۔ یہی کچھ ہوتاآرہاہے او رہوتا رہے گا کہ یہی اس مغربی  جمہوریت کی دین ہے۔ عدل یالا۔ ٹھیک ہے یا نہیں؟
اس کھینچا تانی اور دست و گریبانی کو دیکھ کر ملٹری آجاتی ہے وہ  پھر بھاولپور میں کھاد بن کر کھیتوں میں بکھر جاتی ہے پھر سول حکومت کی باری ہوتی ہے۔ پھر ملٹری آجاتی ہے، مگر مغربی ممالک کو فکر پڑ جاتی ہے کہ فلاں ملک نے اپنے ہاں ہمارا گورکھ دھندہ ختم کر دیا ہے۔ وہ ہر قسم کی امداد بند کردیتےہیں اور یہی زور لگاتے ہیں کہ اپنے ہاں ہمارا گورکھ دھندہ ( جمہوریت) پھر سے بحال کرو اس طرح پھر دولابی چکر شروع ہوجاتاہے۔ اسی مغربی جمہوریت کی بدولت ہماری تیسری نسل تالاب میں پھنسے ہوئے لکڑی کے ٹکڑے کی طرح محوگردش  ہے ۔ پتہ نہیں کب تک رہے گی۔ عدل یالا۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں  یا بک رہا ہوں ؟ کہ ہم نے انسانوں کے خود ساختہ نظام کو اپنا لیا ہے۔ اللہ کا بڑا واضح فرمان ہے۔
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ( 5:44) هُمُ الظَّالِمُونَ (5:45) هُمُ الْفَاسِقُونَ ( 5:47) جو فیصلے اللہ کی نازل کردہ کتاب کےمطابق نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ وہ ظالم ہیں۔ وہ فاسق  ہیں۔تو ظالم کی کھیتی کہاں پنپ سکتی ہے۔ تو عزیزان من خرابیاں تلاش کرنے والو! خرابیاں تو بہت   ہیں کس کس کو گنواؤں ۔ حقیقت  یہ ہے کہ  من الاول الی آخر ایک ایک چیز خراب ہے۔میں منصر صالح کی طرح نہیں  ہوں ۔ تو پھر حالات کیسےتبدیل ہوں گے؟ ہم مقروض، محتاج ،زیردست ، او رمفلوک الحال تباہ حال اور برباد ہی رہیں گے؟ ہماری شب یلدا میں کبھی سحر طلوع نہیں ہوگی؟ عدل یالا میں درست کہہ رہا ہوں یا نہیں ؟ کیونکہ ہم اس ہندو رام داس کی طرح ہیں جو لاہور میں مسلمان ہوگیا تھا ،مولوی نے اس کا  نام عبداللہ رکھامگر گلیوں میں سے گزرتےوقت جہاں مندر آیا وہ ڈنڈوت کرتا، مولانا کو خبر دی کہ وہ ہندو جس کو آپ نےمسلمان کیا تھا وہ آج بھی مندر کے سامنے سے گزرتے وقت بتوں کو سلام کرتاہے۔ مولوی نے کہا اسے لاؤ۔ جب وہ لایا گیا تو مولوی نے پوچھا سنا ہے کہ تم آج بھی مندروں کے سامنے سے گزرتے وقت ڈنڈوت کرتے ہو؟ اس نے کہا یہ بات سچ ہے مولوی صاحب زمانے کی عادت ہے ایک دم سے تو نہیں چھوٹے گی دیر لگے گی  ، او رمیں سو چتا ہوں کہ ان بتوں کے ساتھ  بھی دشمنی  کیوں مول لی جائے کیا پتہ کبھی کام آجائیں ۔ تو عرض یہ ہے قارئین کہ ہماری مسلمانی رام داس کی طرح ہے، ہم کفر سےاسلام کی طرف چلے تھے مگر پہنچے نہیں اب ہم نہ واپس جاسکتےہیں  نہ آگےبڑھ سکتے ہیں ۔ ہم مدینےوالا بیج ضائع کر چکے ہیں انگریزی  جمہوریت کے لئےزمین ساز گار نہیں ۔
نومبر، 2014  بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:

No comments:

Post a Comment