Thursday, April 3, 2014

Daughters in Islam اسلام میں بیٹیوں کا مقام

اسلام ویب
20 مارچ2014
اللہ کا فرمان ہے "(تمام) بادشاہت خدا ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہےیا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بےاولاد رکھتا ہے۔ وہ تو جاننے والا (اور) قدرت والا ہے "[ قرآن 49:50 ] اللہ ایک ہے وہ اپنی حکمت کی بنیاد پر جسے چاہتا ہے بیٹا اور بیٹیاں دیتا ہے وہ بیٹا صرف انہیں دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور بیٹیاں بھی صرف انہیں ہی دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے لاولد ہی رکھتا ہے۔
مندرجہ بالا آیت میں ہم نے یہ نوٹس کیا کہ اس آیت میں بیٹیوں کا ذکر بیٹوں سے پہلے ہے اور علماء کرام نے اس پر یہ تبصرہ کیا ہے: "یہ بیٹیوں کی ہمت افزائی کے لیے ہے اور ان کے تئیں احسان مندی کے سلوک کو فروغ دینے کے لئے ہے اس لیے کہ بہت سارے والدین بیٹی کی پیدائش کو بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ اسلام سے قبل کے ادوار میں لوگوں کا عام رویہ یہ تھا کہ وہ بیٹی کی والادت سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ وہ انہیں زندہ دفن کر دیتے تھے، لہٰذا اس آیت میں گو کہ اللہ لوگوں سے یہ کہہ رہا ہے کہ : تمہاری نظر میں اس کمتر بچی کا مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں بلند و برتر ہے۔ اللہ نے آیت میں بیٹیوں کا ذکر سب سے پہلے ان کی کمزوری کی طرف اشارہ ہے کرنے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کیا ہے کہ وہ تمہاری دیکھ بھال اور توجہ کی زیادہ مستحق ہیں۔"
بیٹیوں کو اس طرح کا اعزاز بخشنا مکمل طور پر اس کے بر عکس ہے کہ جس طرح لوگ ماقبل اسلام کے ادور میں عورتوں کے ساتھ پیش آنے کے عادی تھےکہ جب وہ عورتوں کی تذلیل و توہین کرتے تھے اور انہیں اپنے مال و دولت کا ایک حصہ سمجھتے تھے اور اگر ان میں سے کسی کو بھی بچی کی ولادت کی خبر ملتی تو انہیں اتنا ناگوار گزرتا کہ ان کے اوپر بجلی گر پڑی ہو۔ اس سلسلے میں اللہ کا فرمان ہے: "حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی (کے پیدا ہونے) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ (غم کے سبب) کالا پڑ جاتا ہے اور (اس کے دل کو دیکھو تو) وہ اندوہناک ہوجاتا ہے، اور اس خبر بد سے (جو وہ سنتا ہے) لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری ہے۔"[ قرآن 16:59]
 

No comments:

Post a Comment