Thursday, November 5, 2015

Blue Print for Restoring the Pristine Theology of Islam Expounding The Huquq Al Ibad قرآنی ہدایت کے مطابق حقوق العباد پر مشتمل اسلام کی قدیم تعلیمات کا احیاء کرنے کا خاکہ

 


 محمد یونس، نیو ایج اسلام
10 اکتوبر 2015
(مشترکہ مصنف (اشفاق اللہ سید)، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلکیشنز، امریکہ، 2009)
یہ تحر سلطان شاہین صاحب کے اس مطالبہ کی تائید و توثیق میں آخری ہے کہ : "تمام معاملات میں اسلامی تعلیمات کے پہلوؤں کے مطابق امن اور تکثیریت پسندی پر مبنی ایک ایسی فقہ اسلامی مدون کی جائے جو کہ معاصر اور مستقبل کے معاشروں کے لئے موزوں ہو۔"
بہت سے لوگوں کو اس بات کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ ایمان کے ارکان اسلام کے بنیادی اصولوں کا احاطہ کرنے کے لئے کافی ہیں، اور مکمل طور پر ان کی تابعداری کرنا دین اسلام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے مترادف ہے۔
ایمان کا پہلا ستون خدا کی وحدانیت پر ایمان لانا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا نبی ماننا ہے:
'اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔'
اکثر مسلمان کلمہ شہادت کو محض زبانی اقرار مانتے ہیں، اور اسلام کے دیگر چار ستون- نماز، زکوة، روزہ اور حج کو اپنے تمام مذہبی رسومات اور ذمہ داریوں کا احاطہ کرنے کے لئے کافی مانتے ہیں۔ یہ اسلام کے اندر بڑے پیمانے پر از حد تسہیل پیدا کرنے کے مترادف ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن مجید کے احکامات کو ہی لوگوں کے اعمال کا واحد معیار مانا جاتا تھا [1]۔ اس کے علاوہ، زکوة کے علاوہ، اسلام کا کوئی بھی دوسرا ستون قرآن کے مطابق 'حقوق العباد' کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ اس میں دیگر باتوں کے ساتھ اچھے اور نیک عمل کرنا، تقویٰ (لوگوں کا اپنی سماجی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے آگاہ رہنا)، انصاف کرنا، ضرورت مندوں کے ساتھ دولت کا اشتراک کرنا، بوڑھے والدین کی ذمہ داری اٹھانا، تمام انسانیت کے لئے رحمت اور ہمدردی، کاروباری اخلاقیات، کنواری بیوی اور بیوہ کی حیثیت سے خواتین کا احترام کرنا اور انہیں بااختیار بنانا، (تاریخی سیاق و سباق میں) غلامی کا خاتمہ کرنا، (اور نفرت، دوسروں کی توہین، لالچ، تعصب اور حرص و ہوس) جیسی تمام ذہنی غلاظتوں سے احتراز کرنا بھی شامل ہے –تاکہ حقوق العباد یا انسانوں پر انسانوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کے متعلق قرآنی احکام و ہدیات کو جزوی طور پر عیاں کیا جا سکے۔ انسان کے ذاتی دانشورانہ حقوق میں اپنے پسند کو اختیار کرنے کی آزادی، عقل کا استعمال کرنے کی آزادی، علم حاصل کرنے کی آزادی، آزادیٔ فکر، فطرت کے وسائل کو استعمال میں لانے کی آزادی، سوچنے کی آزادی، غور و فکر کرنے کی کوشش کرنا اور اپنی ذاتی بھلائی، کمیونٹی اور وسیع تر انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے مسلسل جدوجہد کا آغاز کرنا۔
حقیقت یہ ہےکہ قرآنی پیغام کا جوہر 'حقوق العباد' میں مضمر ہے، جو کہ ایک شخص کے تئیں ایک شخص کی ذمہ داری اور عقل کا استعمال کرنے کے ایک انسان کے حق سے متعلق ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ ایمان کے تمام ارکان کا تعلق صرف انسان کی روحانی زندگی سے ہے، جو کہ مذکورہ بالا کے مطابق مسلمانوں پر واجب ہے اور جس کی تکمیل ریاست کے ذریعہ کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا، اگر ہم اسلام کا تعین ایک ایسے مذہب کے طور پر کرتے ہیں جس کی بنیاد اسلام کے ستونوں پر ہے تو ہم اسلام کو ‘حقوق العباد’ کے اس کے وسیع و عریض دائرے سے خارج کر دیتے ہیں، اور ان تمام آزاد مثالوں اور نمونوں کو ختم کر دیتے ہیں جس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے خانہ بدوش عربوں اور خاص طور پر خونریز انتقامی جنگوں میں منہمک لوگوں کو انتہائی متحرک، تخلیقی، روادار اور سائنسی طور پر ترقی یافتہ تہذیب کا بانی اور حکمران بنا دیا۔
لہٰذا، ایک خالصتا مذہبی نقطہ نظر سے مسلمانوں کو اس بات کا اندازہ لگانا ضروری ہے کہ انہوں نے ایمان کے ارکان کے ساتھ اپنے مذہب کو مخلوط کر کے اسلام سے اس کے تمام تر ، آزاد، روشن خیال اور انسانیت نواز جہتوں کو نکال دیا ہے۔ چونکہ خود ایمان کے ارکان بمشکل ہی اسلام کے لیے مذہبی روایات اور عقائد فراہم کرنے کے لئے کافی ہیں اسی لیے اس خلا کو پر کرنے کے لیےاسلام کی ابتدائی صدیوں میں حدیث، سیرت، کلاسیکی شریعت اور ساتھ ساتھ اہل علم کے اجماع اور احکام پر مشتمل ایک فقہ اسلامی مرتب کی گئی اور قرآن مجید کے قدیم پیغامات اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ ایک ممتاز معاصر اسکالر معین قاضی اپنی کتاب: ‘‘Modern Islamic Thought and Radical Age’’ میں لکھتے ہیں:
"اب ہمیں قرآن مجید کے قدیم پیغامات کو اس قرون وسطی کے زمانے کے فقہاء، علماء اور نظریہ سازوں کی آنکھوں سے پڑھنے کے بجائے اسے واضح طور پر سمجھنے کا وقت آ چکا ہے۔ اسلام کے اس حقیقی پیغام کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے جو قرون وسطی کی تعبیرات و تشریحات کے نیچے دفن ہو کر رہ گئے ہیں۔"
ان کے خیالات و نظریات کی تائید و توثیق سید الافغانی (1897-1838)، شیخ محمد عبدہ (1905-1849)، الطاف حسین حالی (1914-1837)، محمد اقبال (1938-1877)، اور سید احمد خان (1898-1817) جیسے گزشتہ دو صدیوں کے عظیم علماء کرام میں کی تحریروں سے بھی ہوتی ہے۔
عہد حاضر میں مسلمانوں کا ذہن و دماغ قرآنی پیغام کے خلاف کے تئیں بے حسی کا شکار ہو چکا ہے، جبکہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران قرآنی پیغامات کو اسلامی افکار و نظریات میں اتارنے کی تمام علماء کی کوششوں کی فقہاء کی جماعت نے مخالفت کی گئی ہے، انہوں نے اسے امت مسلمہ کے لیے سخت نقصاندہ قرار دیا ہے۔ استعارہ کے طور پر کہا جائے تو قرآن اگر ایک ایسا مثالی معجزہ ہے جس نے ابتدائی مسلمانوں کو عظیم بلندیوں پر فائز کر دیا تھا، تو قدامت پسند علماء نے اس کے پنکھوں کو کتر دیا ہے، اس کے اعضاء کو کاٹ دیا ہے، اور عملی طور پر اس کی لاش کو فقہی احکام و ہدایات کی کے ملبے کے نیچے دبا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس نے امت مسلمہ کو تہذیبی طور پر انتہائی پست کرتے ہوئے اسے زمین بوس کر دیا ہے- جو کہ انتہائی مایوس کن اور افسوس ناک صورت حال ہے جس کا مشاہدہ حالیہ صدیوں میں اسلام کی مسلسل سیاسی اور دانشورانہ تنزلی اور عصر حاضر میں مسلمانوں کی اندوہ ناک صورت حال میں کیا جا سکتا ہے، جس کی کوئی تفصیلات پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن کے آزاد خیال اصول اور اس کے سماجی، اخلاقی اور معنوی اصولوں کو کہ جس نے حقوق العباد کی تشکیل کی ہے، سیاسی حکمرانوں کے عزائم اور مال و دولت، طاقت، عزت، شاہانہ زندگی اور مخصوص مراعات کے ساتھ مخلوط کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا، اسلام کی ابتدائی صدیوں کے بعد ہی خاندانی حکمرانوں نے اس کا غلط استعمال کیااور اور یہاں تک کہ انہوں نے علمائے کرام کو قرآن کے مساوات، انسانیت نوازی، صنفی غیر جانبداری اور تکثیریت پسندی پر مبنی پیغامات کو مسخ کرنے پر بھی مجبور کیاتھا جس نے اسلام کو انسانی حقوق (حقوق العباد) کا ابدی نمونہ بنا دیا تھا۔ ‘‘بے شمار تحریریں اس بات پر شاہد ہیں کہ امام ابو حنیفہ کو خلیفہ المنصور (775-754) نے مذہب میں اس سے اختلاف کرنے کی وجہ سے قید میں ڈل دیا تھا۔ ایک اور فقہی مذہب کے بانی امام مالک بن انس کو بھی اسی کے دور اقتدار میں کوڑے مارے گئے تھے’’[2]۔ مزید برآں، اسلام جب نئی ثقافتوں اور تہذیبوں میں داخل ہوا تو اسے ایسے رسوم و رواج اور فقہی قوانین کا سامنا کرنا پڑا جو قرآنی تعلیمات کے خلاف تھے۔ انہیں اسلام کے مطابق کرنے کے لیے –جو کہ اس دور ایک تاریخی ضرورت تھی، ماہرین قانون نے اس بات کا اعلان کر دیا کہ ‘‘جو بھی قرآنی آیت ہمارے آقاؤں کی رائے سے متضاد ہوگی اسے منسوخ مانا جائے گا، یا وہاں ترجیح کا قاعدہ نافظ کیا جائے گا۔ لہٰذا، بہتر یہ ہوگا کہ قرآنی آیت کی تعبیر و تشریح اس انداز میں کی جائے جو ان کی رائے کے مطابق ہو’’[3]۔ اس حدیث کا حوالہ پیش کر کے قرآن کے علمی مطالعہ کی حوصلہ شکنی بھی کی گئی تھی کہ: ‘‘جو کوئی بھی کتاب اللہ (قرآن) کے بارے میں تبادلہ خیال کرتا ہے وہ خطا کرتا ہے، اگر چہ وہ درستگی پر ہی کیوں نہ ہو’’ [4]۔ ان تمام پیش قدمیوں کے ساتھ ساتھ کلام الٰہی کی حیثیت سے لوگوں کے دلوں سے قرآن کی عظمت اور تقدس کے نکل جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کو خالصتا ایک دعا اور عبادت کی کتاب مان لیا گیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس تصور کو اسلامی معاشرے میں ایک قانونی حیثیت حاصل ہوتی گئی، جس کے نتیجے میں پانچ ستونوں پر مبنی ایک تنگ اسلام کی تشکیل ہوئی، اگرچہ، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل (632)، قرآن کے حتمی احکامات کی تعمیل کرنا ایمان کے ستونوں میں سے ایک تھا۔
اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اسلام کو " قرون وسطی کے زمانے کے فقہاء، علماء اور نظریہ سازوں کے آئینے میں "پیش کیا جا رہا ہے، اس سے اس کے مرد علماء اور امیر اشرافیہ کو وہ نظریاتی فوائد حاصل ہوئےجو کہ اس دور کی کوئی دوسری تہذیب یا دوسرے مذاہب پیش نہیں کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اس میں مردوں کو جنسی غلامی، چھوٹی لڑکی سے شادی، تعدد ازدواج، بیویوں کو مارنے اور ان پر ظلم و ستم کرنے اور غیرت کے نام پر قتل سمیت زن بیزاریت پر مبنی مختلف قسم کے رسوم اور روایات کی اجازت دی گئی ہے؛ اس سے مسلسل آمدنی کی ضمانت بھی ملتی ہے اس لیےکہ اسلام کی تبلیغ اب ایک منافع بخش تجارتی پیشہ بن چکی ہے۔ اس سے غریبوں کو کم اجرت دیکر، غبن کر کے، دھوکہ دیکر اور رشوت خوری کر کے مالداروں کو مال و دولت جمع کرنے، اور اس میں سے صرف ڈھائی فیصد کی زکوٰۃ دیکر پوری دولت کو پاک و صاف کرنے کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ اس میں حج کو تمام گناہوں کی بخشش کا بھی ذریعہ قرار دیا گیا ہے، جس کا کوئی بھی ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن کے پیغامات کو روشنی میں لانے سے روکنے کی کوشش میں مالداروں اور علماء کا بہت زیادہ دخل ہے ۔ تاہم، قرآن اور اسی طرح ایک مذہب کی حیثیت سے اسلام ان موروثی اور دقیانوسی علماء کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ ترقی پسند اور روشن خیال مسلمانوں کی ایک بڑھتی ہوئی برادری کے درمیان اس بات کی بیداری پیدا ہو رہی ہے کہ اسلام کو اس کے قرون وسطیٰ کے زمانے کی فقہی پیچیدیوں سے آزاد کیا جائے، ستون اسلام کی کفائیت کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور اسلامی افکار و نظریات میں قرآنی پیغامات کو اتارا جائے۔
ماضی قریب تک علماء فتوی دیکر ترقی پسند مسلمانوں اور دانشوروں کو خاموش کر سکتے تھے، لیکن آج اسے تیزی کے ساتھ اور کھل کر چیلنج پیش کیا جا رہا ہے، اس لئے آج یہ اپنا اثر و رسوخ کھو چکا ہے اور آج غلط اور صحیح الزامات لگائے جا رہے ہیں، اسلام کی حالت زار مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی، انحطات و زوال، زن بیزاری، فرقہ واریت، علیحدگی پسندی، روحانی تفوق، عربیت پرستی، انتہا پسندی، انتشار، فساد، دہشت گردی اور مسلم معاشروں میں اسلام نواز سیاسی عزم و حوصلہ میں جھلکتی ہے۔ تاہم، روایتی اسلام کے مرکز کی جانب سے بڑے پیمانے پر مالی معاونت کی بدولت عالمی میڈیا پر اپنے کنٹرول اور سپر پاور کے ایجنٹ کے طور پر اپنے پراکسی (proxy) کردار کی بنیاد پر یہ آسانی کے ساتھ ترقی پسند، انسانیت نواز اور تکثیریت پسند مسلمانوں کی آواز کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ لہٰذا، جو مسلمان فقہی دلدل سے قرآنی پیغام کی بازیافت کرنا چاہتے ہیں انہیں محض اپنے خیالات نظریات پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے: انہیں موجودہ قرون وسطی کی فقہ کو بدلنے کے لیے قرآنی فقہ پر مبنی ایک متبادل فقہ کی تدوین کرنا ضروری ہے۔ اور اس مضمون کا مقصد خاص طور پر یہی ہے۔
ماضی کے عظیم علماء کے برعکس، اس مضمون کے مصنفین قرآن کا ایک جامع پیغام پیش کرنے کے کا مطالبہ کرنے سے پہلو تہی نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس کا اظہار اپنی مشترکہ اشاعت ([Essential Message of Islam] اسلام کا اصل پیغام) میں کیا ہے جس کی اشااعت نیو ایج اسلام پر قسط وار اور کاملاً دونوں طرح سے کی گئی ہے۔ یہ کتاب حقوق العباد کی تعلیم دینے والے اسلام کی قدیم فقہ کا احیا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ ایک دہائی سے زیادہ تک پوری گہرائی و گیرائی کے ساتھ قرآن مجید کے مطالعہ کا نتیجہ ہے اور اس میں قرآن کے ان حتمی پیغامات اور ہدایات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن سے حقوق العباد کی تشکیل ہوتی ہے۔
اس کتاب کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قرآن کے ذریعے قرآن کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جسے تفسیر کا بہترین ذریعہ مانا جاتا ہے۔ اس کتاب کو الازہر الشریف، قاہرہ، کی منظوری اور اس زمانے کے انتہائی ممتاز عالم دین ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی توثیق بھی حاصل ہے۔ کتاب میں ان کی توثیق کے نوٹ میں اس عالم دین کی اسناد حسب ذیل ہیں:
ڈاکٹر خالد ابو الفضل
اس کتاب کی توثیق اور پیش کش ایک ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر خالد ابو الفضل نے کی ہے، جو کہ یو سی ایل اے(UCLA) اسکول آف لا کے الف معزز پروفیسر ہیں، جہاں وہ بین الاقوامی انسانی حقوق، فقہ اسلامی، قومی سلامتی کے قانون، قانون اور دہشت گردی، اسلام اور انسانی حقوق، سیاسی پناہ اور سیاسی جرائم اور قانونی نظام کی تعلیم دیتے ہیں۔ انہیں 2007 میں یونیورسٹی آف اوسلو انسانی حقوق ایوارڈ اور لیو اور [Lisl Eitinger] کے انعام سے نوازا گیا تھا، اور 2005 میں انہیں کارنیگی اسکالر ان اسلامک لاء نامزد کیا گیا تھا۔ انہیں سابق صدرِ امریکہ جارج ڈبلیو بش نے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے لئے ایک واحد مسلمان نمائندہ کی حیثیت سے منتخب کیا تھا، اور اس سے قبل انہوں نے ہیومن رائٹس واچ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔ ڈاکٹر ابو الفضل نے 14 کتابیں (پانچ آنے والی ہیں) اور اسلامی قانون اور اسلام پر 50 سے زائد مضامین تحریر کی ہیں۔ ان کی کتابوں کا ترجمہ عربی، فارسی، فرانسیسی، ناروے، ڈچ، ایتھوپیائی، روسی، اور جاپانی سمیت متعدد زبانوں میں کیا گیا ہے۔ 2007 میں ان کی کتاب "[ The Great Theft]عظیم چوری" کو کینیڈا کے گلوب اینڈ میل نے سال کے سب سے اعلیٰ 100 کتابوں میں سے ایک کے طور پر نامزد کیا تھا۔ ان کی کتاب، "[The Search for Beauty in Islam: A Conference of the Books]، اسلام میں خوبصورتی کی تلاش: کتابوں کی ایک کانفرنس" معاصر اسلامی ادب میں ایک سنگ میل ہے۔
اس کتاب کے لیے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی توثیق:
"جنہیں اپنی اخلاقی ذمہ داری کا احساس ہے ان کے لیے، میں یہاں جو کتاب متعارف کرا رہا ہوں اسلامی عقیدے پر ایک انمول رہنمائی ثابت ہوگی۔ جو لوگ مذہبی تعصب اور نفرت کی ترویج و اشاعت میں شریک نہیں ہونا چاہتے ان لوگوں کے لئے یہ کتاب مسلمانوں کے عقائد اور معمولات کا ایک درست، فکر انگیز، اور قابل اعتماد تعارف فراہم کرے گی۔ میرے خیال میں ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں یہ کتاب دین اسلام کے صحیح تعارف میں دلچسپی رکھنے والے دین کے طالب علموں کے لئے ایک معیاری حوالہ بن جائے گی۔ اس کتاب کے بارے جو سب سے اچھی بات میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ کتاب ایک دہائی پر مشتمل محبت بھری کاوشوں اور محنتوں کا نتیجہ ہے۔ مصنفین خود اپنے مذہب پر مبنی کوئی ذاتی نقطہ نظر پیش نہیں کرتے؛ وہ پوری بے باکی اور وضاحت کے ساتھ اس بات کی توضیح کرتے ہیں کہ مرکزی دھارے میں شامل مسلمان کا عقیدہ کیا ہے اور خاص طور پر خود قرآن کی تعلیمات کیا ہیں۔ غیر مسلموں کو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ کیوں ایک ارب سے زیادہ لوگ خود کو مسلم کہتے ہیں اور یہ بھی کہ اسلام مسلمانوں کی کس انداز میں معاملات انجام دینے اور اس دنیاں میں بہتری پیدا کرنے کی تعلیم دیتا ہے جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔ بے شک اس کتاب سے مسلمانوں کے افکار و نظریات کی عکاسی ہوتی ہے، اور اس سے لوگوں کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اسلام موجودہ دور اور ہر دور میں انسانیت کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے۔ جو قارئین اسلام کی مذہبی اور اخلاقی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں ان کے لیے یہ کتاب ناگزیر ہے۔ یہ کتاب منصفانہ ذہنیت کے حامل اور دلچسپی رکھنے والے قاری کے لئے صرف ایک معلوماتی آلہ کار ہی نہیں، بلکہ یہ کتاب مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے ایک تعلیمی آلہ کار ہے یہ ان مسلم اور غیر مسلم دونوں نوجوانوں کو تعلیم دینے کے لیے ایک مستند کتاب ہے جنہیں قرآن، یا اپنے مذہب کے بنیادی اصولوں کا مطالعہ کرنے کے لئے وقت نہیں ملا۔ اس کتاب کو اس انداز میں توازن اور منصفانہ ذہنیت کے ساتھ لکھا گیا ہے جو اسے اسلام کے مسلم اور غیر مسلم طالب علموں کے لیے یکساں طور پر اہم بنا دیتا ہے۔ میں اس کتاب کے بارے میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ اسے اخلاقی طور پر دو ایماندار اور اصول پسند مسلمانوں نے تحریر کیا ہے، تاکہ اسے اخلاقی طور پر دنیا کے تمام ایماندار اور اصول پسند مسلمانوں تک پہنچایا جا سکے۔ ان کی باتوں کو سنا جانا ضروری ہے۔"
ڈاکٹر خالد ایم ابو الفضل
اسلامی قانون کے الفی معزز پروفیسر
یو سی ایل ائ [UCLA] اسکول آف لاء
کتاب کی تعریف میں عرب دنیا کے بین الاقوامی علما کے کلمات
-------
ڈاکٹر لطیفہ بالفکیر
مراکش میں ماکنس کا اسکول آف آرٹس ایند ہیومینٹیز، 15 دسمبر، 2010۔
"میں مراکش میں ماکنس کا اسکول آف آرٹس ایند ہیومینٹیز سے وابستہ ڈاکٹر لطیفہ بالفکیر ہوں۔ مجھے آپ کی کتاب اسلام کا اصل پیغام (Essential Message of Islam) بڑھ کر بے انتہاء خوشی اور مسرت ہوئی۔ یقین مانیں یہ ایک انتہائی اہم کتاب ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے ہمارے مذہب کے بہت سے پہلوؤں کو واضح کرتی ہے، اور یہ کتاب ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی اور آپ کی غیر معمولی شخصیت پر زیادہ روشنی ڈالتی ہے۔ اللہ آپ کو کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار کرے۔ "
‘‘نیک تمنائیں’’
-------
محمد مبتسم
فیکلٹی آف ہیومینیٹیز اینڈ لیٹرس –دارلمرکز –فیس –26 نومبر، 2010
"ڈاکٹر فاطمہ صادقی مراکش، فاس میں فیکلٹی آف ہیومینیٹیز کے شعبہ انگریزی میں آپ کی کتاب اسلام کا اصل پیغام (Essential Message of Islam) کے کچھ نسخے لے کر حاضر ہوئیں۔
شعبہ انگریزی کے تمام ساتھیوں اور ماڈیولر ڈگری پروگرام کے تمام پروفیسرس کی جانب سے، کہ جن کی قیادت میں کر رہا ہوں، میں آپ کی کتاب کے ان نسخوں کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جو آپ نے ہمیں ارسال کیا ہے۔
 "اس کتاب کے مطالعہ کے بعد میں اس کتاب کو قرآن کی تفسیر اور تعبیر و تشریح میں ایک بہتر تعاون مانتا ہوں۔ یہ ایک مشکل کتاب ہے جو کہ اس عنوان پر موجودہ روایتی کتابوں سے مختلف ہے، جو مسلم مسیحی اور یہودی تعلقات کے بارے میں کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے، اسلام کو ایک عالمگیر مذہب کے طور پر پیش کرتی ہے، اور تمام مذاہب کے لوگوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو فروغ دیتی ہے۔ کتاب ہمارے طالب علموں اور خاص طور پر کلچرل اسٹڈیز اور جینڈر اسٹڈیز کے پوسٹ گریجویٹس (ایک اے اور پی ایچ ڈی) کے لیے معاون ہوگی۔ فاس میں فیکلٹی آف ہیومینیٹیز کی لائبریری کے کیٹلاگ میں آپ کی کتاب ([Essential Message of Islam] اسلام کا اصل پیغام کو بھی شامل کیا جائے گا۔"
فاطمہ ہراک
محقق و پروفیسر
انسٹی ٹیوٹ برائے افریقی علوم
محمد پنجم یونیورسٹی، رباط - مراکش، 09دسمبر، 2010
"پروفیسر موہا ناجی نے مجھے اسلام پر آپ کی کتاب کے تین نسخے پیش کیے۔ اس کتاب کے لیے آپ کو مبارک پیش کرتا ہوں، یقیناً میں اس کتاب کو بیرون ملک اور مراکش میں اپنے ساتھیوں اور طالب علموں کو بھی پیش کروں گا۔
آپ کے تحفے کے لئے ایک بار پھر شکریہ اس نیک عمل کو جاری رکھیں۔
‘‘آپ کا بے حد شکر گزار’’
-------
غیر عرب دنیا کے بین الاقوامی شہرت یافتہ علما کی جانب سے اس کتاب کی تعریف
Amazon.com ویب سائٹ پر کینیڈا کے ایک نا معلو اسکالر نے 1 ستمبر 2010 کو لکھا کہ:
اگر آپ اسلام پر صرف کوئی ایک کتاب پڑھنا چاہیں تو ضرور اس کتاب کو پڑھیں۔ یہ حق و صداقت پر مبنی ہے، خواہ آپ کی پیدائش ایک مسلم خاندان میں ہوئی ہو یا مسلمانوں یا اسلام سے آپ کو کوئی واقفیت ہی نہ ہو۔ در اصل ان دونوں سامعین کے حوالے سے مصنفین نے اس بات کو اجاگر کی ہے کہ قرآن کا حقیقی اسلام ثقافتی افسانوں سے کس قدر مختلف ہے، اسلام کے تعلق سے جن کی ترویج و اشاعت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے دونوں درمیان کی گئی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ بہت سے غیر مسلم اس مذہب کے حقیقی انسانیت نواز چہرے کو دیکھ کر چونک جائیں گے، جبکہ بہت سے مسلمان بھی اپنے مذہب کی حقیقی بنیادی کتاب کی تعلیمات کو جان کر یکساں طور پر حیران ہو جائیں گے، جنہیں اکثر اسلامو فوبیائی اور ساتھ ہی انتہا پسند سیاسی اسلامی بیان بازی میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے، یا سیاق و سباق کے بغیر ہی ان کا حوالہ پیش کر دیا جاتا ہے۔"
حوالہ:
سیف شاہین
ریسرچ سکالر، آسٹن، ٹیکساس یونیورسٹی 28 دسمبر، 2011
-------
"مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں غلط باتیں اس قدر عام ہو چکی ہیں کہ وہ کبھی کبھی زومبی فلموں کے بھوتوں کی طرح معلوم ہوتی ہیں، جو ہر دروازے اور کھڑکی سے آپ کو گھورتے ہیں، ہر کونے سے آپ کی طرف بڑھتے ہیں، اور آپ کو پھاڑنا چاہتے ہیں۔ جبکہ غیر مسلموں کے درمیان نسبتا غیر مضرت رساں افسانے مقبول ہیں، یہ اسلام کے بارے میں غلط اور جھوٹی باتیں ہیں جن پر مسلمان یقین کرتے ہیں جو کہ بہت زیادہ خطرناک ہیں۔ سالوں، دہائیوں اور صدیوں کے دوران ان جھوٹ اور غلط باتوں کو جمع کیا گیا ہے، جو مذہب کی شہ رگ میں خلل پیدا کر رہے ہیں۔ اسلام کا اصل پیغام [Essential Message of Islam] ایک ایسی کتاب ہے جس میں محمد یونس اور اشفاق اللہ سید نے ان جھوٹ اور غلط باتوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش ہے، اور اس کے لیے انہوں نے قرآن سے رجوع کر کے قرآن میں استعمال ہونے والے اس کے الفاظ اور محاوروں کے معانی کو اخذ کیا ہے، اور قرآن کی سورتوں اور آیتوں میں مذکور پیغامات کی تشریح انہوں نے "وسیع تر اخلاقی تناظر" میں کی ہے۔
کتاب کا مطالعہ اس لنک پر کیا جاسکتا ہے۔
-----
ہمیں امید ہے کہ یہ مذہب اسلام میں اس کی قدیم خوبصورتی کو بحال کرنے میں جو اس کے حقوق العباد کے نظریہ سے ماخوذ ہے، اور ‘‘تمام معاملات میں اسلامی تعلیمات کے پہلوؤں کے مطابق امن اور تکثیریت پسندی پر مبنی ایک ایسی فقہ اسلامی مدون کرنے میں جو کہ معاصر اور مستقبل کے معاشروں کے لئے موزوں ہو’’ ایک چھوٹا سا نقطہ آغاز ہو گا۔
حوالہ جات:
1۔ صحیح بخاری، باب 42، 'کتاب العقائد'۔
2۔ http://en.wikipedia.org/wiki/Al-Mansur
3۔ احمد حسین، اسلام میں اجماع کے اصول، نئی دہلی، 1992، صفحہ16۔
4۔ سنن ابوداؤد، اردو ترجمہ، وحید الزماں، جلد۔3، Acc253، صفحہ۔118۔

No comments:

Post a Comment