Monday, July 6, 2015

Race, Family and Caste: The Irony of History نسل ،خاندان اور ذات پات:المیہ تاریخ







ڈاکٹر مبارک علی
نسل ،خاندان اور ذات پات
ہندوستان کےجاگیردارانہ معاشرے میں نسل ، خاندان اور ذات پات کے نظریات نے اہم تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کےقیام کے بعد مساوات اور اخوت کے اصولوں کو نظر انداز کر کے یہاں نسلی و خاندانی بنیادوں پر منصب و عہدے جاگیریں اور مراعات تقسیم کی گئیں جس کے نتیجے میں چند خاندان سیاست و اقتدار پر قابض ہوئے اور انہوں نے اپنے اقتدار کو قائم و دائم رکھنے کےلئےنسل خاندان اور ذات پات کے نظریات کو فروغ دیا تاکہ معاشرے کی اکثریت کو ذہنی طور پر متاثر کرکے انہیں نچلے وکم تر درجے پر مطمئن رکھا جاسکے۔
جب مسلمان ہندوستان میں بحیثیت فاتح کے آئے اور اپنی حکومت قائم کی تو یہ ایک اقلیت کی اکثریت پر حکومت تھی ۔ اس لئے اقلیت کی حکومت کی بنیادوں کومستحکم کرنے کے لئے ضروری تھاکہ ان میں احساس برتری پیدا کیا جائے تاکہ یہ اکثریت پر حکومت کرسکیں ۔ چنانچہ فاتحین کی اقلیت نے نسلی و خاندانی بنیادوں پر اس احساس برتری کو قائم کیا۔
مسلمانوں کی حکومت کے قیام سےدوسری تبدیلی یہ آئی کہ سیاسی و معاشی و سماجی وجوہات کی بنا پر یہاں کی مقامی آبادی میں کچھ لوگ مسلمان ہونا شروع ہوگئے ۔ ان کارد عمل اہل اقتدار طبقے پر یہ ہوا کہ اگر ان کےساتھ مساوات کاسلوک کیاجائے تو انہیں بھی اقتدار اور مراعات میں شامل کرنا پڑے گا اس لئے اقتدار اور مراعات سے محروم کرنے کےلئے اس طبقے کو نسلی اعتبار سےکمتر اور نیچا سمجھا گیا اور انہیں سماجی و معاشرتی و سیاسی زندگی میں برابر کا درجہ نہیں دیا گیا ۔ مسلمانوں کی حکومت کے اس ابتدائی دور میں ترک نسل کے افراد کااعلیٰ عہدے اور منصب دیئے جاتے تھے اور معاشرے کےدوسرے افراد کو ان سے محروم رکھا جاتا تھا ۔ چنانچہ جب سلطانہ رضیہ نے ملک یا قوت کاعہدہ بڑھایا تو اس کے اس رویے کے خلاف ترک اہل اقتدار طبقے نے سخت احتجاج کیا یہاں تک کہ اس کے خلاف بغاوت کرکے اس کو تخت و تاج سے محروم کردیا۔
جب سلطان غیاث الدین بلبن تخت نشیں ہوا تو اس نے ترک اہل اقتدار کوطبقے کی حمایت حاصل کرنے اور انہیں مطمئن کرنے کی غرض سےنسلی پالیسی کو فروغ دیا اور سختی کےساتھ اس بات کی کوشش کی کہ حکومت اور اقتدار کے کسی شعبہ میں دوسری نسل کے افراد کو چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو انہیں شریک نہیں کیا جائے گا۔ عہد سلاطین کےمشہور مورخ ضیاء الدین برنی نے سلطان کے اس اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ :
‘‘ اس نے کسی رذیل بے کار ، کم اصل، کمینے اور پست ہمت شخص کو کوئی عہدہ نہیں دیا ۔بلکہ لوگوں کو محل کے قریب آنے کا بھی روادار نہ تھا جب تک وہ آدمی کی اصل بنیاد کو نہ جان لے کوئی شغل یا کام اس کے سپرد نہ کرتا’’۔
(ضیاء الدین برنی: تاریخ فیروز شاہی : اردو ترجمہ ۔ لاہور ۔1969ء ص ۔77)
یہ نسلی تفاخر بلبن کے نظریہ بادشاہت میں بھی پوری طرح نمایاں تھا جس کااظہار وہ اس طرح سےکرتا ہے:
‘‘اگر بادشاہ سفلوں ، کم ظرفوں، مفردوں ، سپاہیوں، نالائقوں ، نا اہلوں ، سوداگروں، دوکانداروں ..... مسخروں اور بداصل لوگوں سےبات کرے گا.... تو وہ حشمت بادشاہی اور ہیبت اولوالامری کو خود اپنے ہاتھ سےتباہ کردے گا’’۔
 (برنی ص ۔85)
برنی نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عہدے کےلئے ایک شخص کا انتخاب ہوا،جس کا نام کال مہیار تھا ۔ جب بلبن نے اس سے مہیار کے معنی پوچھے تو اس نے کہا : ‘‘مہیار میرا باپ ہے اور وہ ہندوغلام تھا’’ بادشاہ یہ سنتے ہی غضب کےعالم میں دربار سے اٹھ کر چلا گیا اور بعد میں اپنے امراء سے کہا:
‘‘ میں کسی کم اصل ‘ کمینے ’ رذیل اورذلیل کو کسی شغل ، مرتبے یا عزت کی جگہ پرنہیں دیکھ سکتا ۔ اور جوں ہی اس قسم کے لوگ میرے سامنے آتےہیں میرےجسم کی تمام رگیں حرکت میں آجاتی ہیں ..... میں کسی کمین نسل کےلڑکے کو حکومت میں جومجھ کو خدا کی طرف سے ملی ہے ،شریک نہیں کرسکتا ..... اگر اس کے بعد کسی خدمت اقطاع ،خواجگی مشرفی یامدبری پر تقریر کےسلسلے میں کسی کمینے ، بداصل یا ذلیل زادے کو ان کا رکنوں نے میرے سامنے پیش کیا، چاہے وہ ہزار ہنر مند ہو تو میں ان کے ساتھ وہ برتاؤ کرونگا جس سے دنیا کے لوگ عبرت حاصل کریں گے۔’’(برنی ص ۔89۔90)
اس سلسلے میں بلبن ہی نے اپنے امراء کویہ واقعہ سنایا کہ التمش کے زمانے میں بھی ایک مرتبہ اس سےشکایت کی گئی کہ اس کے وزیر نے کم اصل لوگوں کو عہدے دے رکھے ہیں ،تو سلطان نے فوراً حکم دیا کہ ایسے لوگوں کےحسب و نسب کی تفتیش کی جائے ۔ اس پر 33 عہدے دار ایسے نکلے جو کم اصل تھے چنانچہ انہیں فوراًملازمت سےبر طرف کر دیا گیا : (برنی : ص۔91۔92)
نسلی تفاخر کی پالیسی سےجو بات واضح ہوکر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ترک فاتحین اپنے اقتدار میں کسی کو شریک کرنانہیں چاہتے تھے ۔ اس لئے بار بار اس بات کو دہرایا گیا کہ کم اصل لوگوں کوحکومت کے عہدے نہ دیئے جائیں، تاکہ حکومت صرف ایک مخصوص طبقے کے ہاتھوں میں رہے۔
نسلی برتری و تفاخر کے حامی اس طبقے کے نمائندگی ، ضیاء الدین برنی نے کی ہے اور اپنے خیالات افکار کے ذریعے اس نے انہیں نظریاتی بنیادیں فراہم کیں اپنے خیالات کااظہار اس نے ‘‘فتاویٰ جہانداری’’ میں کیا ہے۔ جونہ صرف برنی کے بلکہ اس عہد کےحکمران طبقے کےذہن کی عکاسی کرتی ہے ۔ برنی اس بات کاقائل ہےکہ انسان مساوی طور پر پیدا نہیں ہوا ہے بلکہ ازل سے اس میں شرافت اور نجابت پیدا کردی گئی ہے۔ اس طرح ابتداء ہی سے ہر فن ، ہر پیشہ وہنر کی صلاحیت اس میں پیدا کردی جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے معاشرے میں ان لوگوں کو فضیلت دی ہے جو نفیس اور اعلیٰ پیشے اختیار کرتےہیں ۔ ایسے لوگوں کو خدا بہترین اوصاف سے نوازتا ہے ۔جیسے وفاداری ،بصیرت ، عدل ان لوگوں کو اشراف ،آزاد ،عالی نسب، اور نجیب الطرفین کہا جاتا ہے ۔ یہ طبقہ اس کااہل ہوتا ہے کہ اسےحکومت میں اعلیٰ عہدے دیئے جائیں ۔ دوسری طرف کم اصل لوگ ہیں جو حقیر پیشے اختیار کرتے ہیں ۔ یہ لوگ صرف برائیوں کےلائق ہوتےہیں جیسے گستاخی ، دروغ بیانی، بخل ، غبن ، حرام کاری ، احسان فراموشی ، گندگی ، ناانصافی ، بے غیرتی ، بدقماشی ، عیاری اور بےدینی ۔ ایسے لوگوں کو کم اصل ، بازاری، رذیل ،کمین، نالائق ، نیچ ذات ،بے شرم اور ناپاک کہا گیا ہے ۔ ایسے لوگوں کی ترقی سےاس دنیا کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ کیونکہ یہ خدا کی مصلحت کے خلاف ہے۔
(ضیاء الدین برنی : سلاطین دلی کا سیاسی نظریہ ۔ محمد حبیب وبیگم افسر عمر ۔دہلی ۔1979ء ص۔ 202۔204)
برنی اس بات پر زور دیتا ہے کہ کم تر طبقے کےلئے تعلیم ممنوع ہونی چاہئے کیونکہ اگر انہوں نے تعلیم حاصل کرلی تو یہ لائق اور قابل ہوجائیں گے۔
‘‘ ہر طرح کےاساتذہ کو یہ سختی سے حکم ہوتا ہے کہ وہ کتوں کے حلق میں قیمتی پتھر نہ ٹھونسیں ، یا خنزیروں اور ریچوں کے گلے میں گلو بند نہ پہنائیں ، یعنی کمینوں ،رذیلوں اور نکموں کو ، دوکانداروں اور کم اصل کو نماز ، روزہ زکوۃ اورحج کےارکان اور قرآن کے کچھ پاروں اور کچھ دینی عقائد سے زیادہ کی تعلیم نہ دیں۔ جن کے بغیر ان کاایمان مکمل نہیں ہوسکتا ...... لیکن اس کےعلاوہ انہیں کچھ بھی نہ پڑھائیں کہ ان کمین نفوس کو عزت نہ مل جائے۔
(سلاطین دہلی کا سیاسی نظریہ 121۔122)
اس کے بعد برنی اس بات پر زور دیتا ہے کہ اقتدار میں سوائے اعلیٰ طبقے کے اور کسی کو اس میں شریک نہ کیا جائے چاہے عالی نسلوں کے تقرر سے حکومت کو نقصان نظر آئے اور کم اصلوں کے تقرر سےفائدہ ۔ مگر کسی بھی صورت میں عہدے ان لوگوں کو نہ دیئے جائیں ۔ (سلاطین دہلی:ص۔146۔147)
برنی کو اس بات کا احساس تھا کہ علمی دنیا میں ذہانت کسی طبقے کی میراث نہیں اور اہلیت و صلاحیت کسی کی جاگیر نہیں ۔ خصوصیت سے آرام و آسائش مراعات او رمقابلہ نہ ہونےسے بر سر اقتدار طبقے کی صلاحیتوں کو زائل کرنا شروع کردیا تھا، اور ان میں نالائق اور نااہل افراد کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ جب کہ مراعات سےمحروم طبقے محنت و مشقت سےاپنی صلاحیتیں اجاگر کررہا تھا ۔ اس لئے برنی نسلی و خاندانی تفاخر کی بنیادوں پر اس نااہل طبقے کی مراعات کے تحفظ کی کوشش کررہا تھا ۔ اس سلسلے میں اس کے دلائل بڑے لاجواب ہیں ۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں رذیل ،کم اصل او ربے دین ، کسی دین یا دینوی کام کو پورا نہیں کرسکتے اگر بادشاہ کم اصل لوگوں کو عہدے دے گا تو اسے خدا کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا ۔ اس لئے اسے چاہئے کہ عالی نسب لوگوں کو عہدے دے تاکہ روز محشر اسےنجاب مل سکے (سلاطین دہلی ص۔190) ایک دوسری جگہ کہتا ہے کہ اگر کمین کم اصل ایک سو خوبیوں سے بھی مزین ہو تب بھی ملک کا نظم و ضبط نہیں چلا سکے گا۔ اور سیاسی قیادت واعتماد کا اہل نہیں ہوگا ۔ (ایضا ۔199)
برنی ان سلاطین پر تنقید کرتاہے کہ جو حسب و نسب دیکھے بغیر لوگوں کومحض وفاداری کی بنیاد پر جو بزرگی اور عظمت کا درجہ دیا گیا ہے اس پر برنی کہتا ہے کہ :
‘‘ یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ نجس اور نجس ذات کمین اور کم اصل میں تقویٰ نہیں ہوسکتا اگر ایک رذیل بازاری ،انسان میں تقویٰ دکھائی دے تو سمجھ لو یقیناًؑ اس کے بزرگوں کا خون شریف خون سے مخلوط ہوگیا ہوگا۔’’
(ایضا 208)
نسلی تفاخر خاندان اور ذات پات کے نظریات عہد مغلیہ میں باقی رہے اس عہد میں اہل اقتدار طبقہ ایران اور وسطی ایشیاء سے آنے والوں کا تھا اکبر کے زمانے میں صرف راجپوتوں کے اعلیٰ خاندانوں کو اقتدار میں شریک کیا گیا مغل حکومت میں خاندانی امراء کو رعایت دی جاتی تھی ۔ مثلاً اکبر نے ایک مرتبہ ہدایات دیں کہ : قدیم خاندانوں کونظر انداز نہ کیا جائے ۔اسلاف اور بزرگوں کے کمالات کو پیش نظر رکھ کر ان کے نا اہل جانشینوں کا بھی لحاظ رکھا جائے ۔
(آئین اکبری ۔آئین نمبر 2 اردو ترجمہ :572)
اس سلسلے میں آئین اکبری میں اعلیٰ و ادنیٰ خاندان کے افراد پر جرمانوں کی تفصیلات بڑی دلچسپ ہیں ۔ مثلاؑ اگر کم مرتبہ رذیل کسی عالی رتبہ اور شریف خاندان کو گالی دے تو اس سے جرمانہ کے طور پر ساڑھے بارہ درہم لئے جائیں ۔اگر برابر درجے کے ایک دوسرے کو گالی دیں تو اس کا نصف اگر عالی مرتبت شریف آدمی گالی دے تو اس سےچوتھائی وصول کیا جائے ۔( آئین اکبنری دوم 235)
پورے عہد مغلیہ میں ہندوستان معاشرہ نسلی برتری ، خاندان ، ذات پات کی تقسیم کی وجہ سےنمایاں رہا اور سیاسی اقتدار چند خاندانوں میں محدود رہا۔ اور عوام کو ذلیل حقیر اور کم اصل سمجھ کر ان کے سیاسی مرتبے کو بڑھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے اہل اقتدار طبقے نے ان نظریات کو اس وقت تک برقرار رکھاجب تک ہندوستان میں ان کی حکومت مضبوط اور مستحکم رہی ۔ لیکن جب حکومت پر انکی گرفت کمزور پڑی اور ان کے خلاف دوسری سیاسی طاقتیں ابھرنا شروع ہوئیں تو سیاسی کمزوری ، اور خانہ جنگیوں نے معاشرے کے معاشی و سماجی اور معاشرتی استحکام میں ٹوٹ پھوٹ شروع کر کے زبردست تبدیلیاں کیں اور وہ ڈھانچہ جونسل خاندان اور ذات پات کی بنیادوں پر کھڑا تھا ، گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہونا شروع ہوگیا ۔ بڑے بڑے امراء کے خاندان اپنی جائیداد وں اور مراعات سےمحروم ہوگئے ۔ قدیم خاندانوں کی حالت زار، روایات و اقدار کی تبدیلی اور سماجی شان و شوکت کی موت نے اس عہد کے شاعروں ، ادیبوں اور مورخوں کو بڑا متاثر کیا اور نوحہ کناں ہیں کہ معاشرے میں قیامت آگئی عزت و حرمت کےپیمانے بدل گئے ۔ امیر و غریب کا فرق مٹ گیا ، خاندانی و کم اصل ایک ہوگئے ۔ نیچ ذات دولت مند بن بیٹھے اور اپنی ذات بدل کر معزز اور شرفاء کے زمرے میں شامل ہوگئے ۔
اس لئے اس آخری عہد مغلیہ میں جہاں شعراء رخصت ہوتی ہوئی شان و شوکت کا مرثیہ پڑھ رہے تھے وہاں مورخین ‘‘عبرت نامے’’ تصنیف کر کے شرفاء اور معززین کے زوال پر افسوس کررہے تھے ۔مثلاً قدیم خاندانوں کے افراد خاک کےبرابر ہوگئے اور شائستہ خاں و جعفر خاں کی اولاد کےلئے سواری تک میسر نہیں ۔ اجلاف اور رذیل قوم کے پاس حکومت آگئی اور شرفاء بازاروں میں محنت و مزدوری کرتے پھررہے ہیں۔ ان کے نزدیک مغلیہ خاندان کے زوال کا ایک اہم سبب یہ تھاکہ اس میں شرفا ء اپنے درجے سے محروم ہوگئے تھے ۔
تاریخ میں اس نسلی تفاخر ،خاندان، اور ذات پات کے منفی اثرات ہوئے ۔ اہل اقتدار طبقے نے تمام مراعات اور معاشرے کی دولت پر قبضہ کر کےملک کی اکثریت کو زندگی کی سہولتوں سےمحروم کردیا۔ اس احساس محرومی نےاکثریت کو ملک و قوم سے علیحدہ کردیا ۔جب تک یہ ایک طبقہ سیاسی طاقتور رہا یہ عوام کو لوٹتے اور کھسوٹتے رہے ، لیکن جب بیرونی حملے ہوئے اور ان کی جائیدادیں وجان و مال خطرے میں پڑے تو عوام کی اکثریت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور جنگوں سے علیحدہ رہے۔ اگر چہ ایسے موقعوں پر مذہب و قوم وطن کا نام لے کر اپنی مراعات و جائیدادوں کے دفاع کی کوشش تو کی گئی مگرعوام کی اکثریت نے انہیں بچا نے کی کوشش نہیں کی۔
دوسرا منفی اثر یہ ہوا کہ اہل اقتدار طبقے نے صرف اپنے افراد کو تعلیم اور انتظامی تربیت دی اور معاشرے کےدوسرے طبقوں پر دروازے بند کردیئے اس لئے دوسرے ذہین اور باصلاحت افراد کو مساوی مواقع نہیں ملے ۔ اس لئے جب اس طبقے کے افراد عیاشی ، و سہولتوں اور مراعات کے بوجھ تلے اپنی صلاحیتوں سے محروم ہوئے تو معاشرہ تیزی سےزوال پذیر ہونا شروع ہوگیا ۔
نسل ، خاندان، اور ذات پات کے نظریات کو فروغ دینے کےلئے ادیبو ں، شاعروں اور دانشوروں نے بڑا حصہ لیا ۔ اور ‘‘ خاندان ،اعلیٰ ذات ، شریف خون ،اور ‘‘خون کی پاکیزگی’’ کے خیالات کو معاشرے میں مقبول بنایا ۔ مثلاً ایک شاعر فرماتے ہیں کہ :
‘‘کمینے آدمی کو ایک دو گھڑی سےزیادہ فروغ حاصل نہیں ہوا، تلچھٹ اگر اوپر آبھی جائے ’ آخر اسے تہہ نشین ہوناہی ہے’’۔
اس وجہ سے جب ہندوستان کی برادریاں مسلمان ہوئیں تو انہوں نے مسلمان معاشرے میں مساوی سماجی رتبہ حاصل کرنے کےلئے ضروری سمجھا کہ خود کو انصاری ، قریشی، اور شیخ بنالیں ، ذات پات کی اس تبدیلی پر بھی ایک شاعر نے اس طرح اظہار خیال کیا ہے:
‘‘ میں ابتدا ء میں روئی دھننے والا تھا ، پھر شیخ بن گیا اگر اناج سستا ہوگیا تو میں اس سال سید بن جاؤں گا۔’’
چنانچہ ہندوستان میں اعلیٰ طبقہ شریف کہلاتا تھا ،جب کہ نچلا طبقہ اجلاف۔ شریف میں سید، مغل، پٹھان اور شیخ شامل تھے ، جب کہ اجلاف میں کاشتکار ، تاجر اور مختلف پیشے کے لوگ آتے تھے اور سب سے نچلے طبقے میں قصائی اور بھنگی تھے ۔
ہندوستانی معاشرے میں ہنر مند اور محنت کرنے والے کو ذلیل سمجھا جاتا تھا ۔ امیر اور شریف خاندان کے لوگ انتہا ئی مجبوری کی حالت میں بھی کوئی پیشہ اختیار نہیں کرتے تھے ۔ انشاء اللہ خان نے اسی کی جانب اشارہ کیا ہےہ:
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جسے دیکھو یہی کہتا ہے ہم بے کار بیٹھے ہیں
ہندوستانی معاشرے میں ذات پاس کی تقسیم اس قدر گہری ہوگئی تھی کہ مشہور عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی نے ذات پات کے اثرات کےتحت شادی بیاہ کے قوانین وضع کئے : مثلاً اگرکسی عورت نے اپنےمیل سےنکاح نہیں کیا اور اپنے سے کم ذات والوں سےنکاح کرلیا اور اس پر اس کا ولی ناخوش ہوگیا تو فتویٰ یہ ہے کہ نکاح درستر نہیں ہوگا( بہشتی زیور ص ۔6) اس لئے وہ بار بار اس بات پر زور دیتےہیں کہ بےمیل بے جوڑ نکاح نہ کیا جائے ۔ اس کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ نسب میں کن کن ذات کے افراد میں برابری ہے ۔ مثلاً شیخ ’ سید، انصاری، اور علوی یہ سب ایک دوسرے کے برابر ہیں ۔ اگرچہ سیدوں کا رتبہ بڑھا ہواہے ۔ لیکن سید کی لڑکی شیخ سےبیاہی جاسکتی ہے ۔ نسب میں اعتبار باپ کا ہے ماں کا نہیں ۔ اس لئے اگر کوئی سید باہر کی عورت گھر میں ڈال لے تو اولاد سید ہوئی ۔ لیکن اگر ماں اور باپ دونوں عالی خاندان کےہوں تو ان کی عزت زیادہ ہوگی ۔(بہشتی زیور ص 9)
اس کے بعد کہتے ہیں کہ مغل ، پٹھان ایک قوم ہیں، یہ شیخوں اور سیدوں کی ٹکر کےنہیں ۔ پیشوں میں برابری اس طرح سے ہے کہ جولا ہے درزیوں کے برابر ہیں ۔ نائی اور دھوبی درزی کے برابر کےنہیں ۔( حصہ چہارم ص 10)
ان نسلی اور خاندانی نظریات کے اہم تاریخی اثرات مرتب ہوئے ۔ مسلمان با اقتدار طبقے نے نہ صرف کہ ہندو اکثریت کو حکومت سےعلیحدہ رکھا بلکہ نو مسلموں اور غریب نچلے مسلمانوں کو بھی معاشرے میں مساوی درجہ نہیں دیا۔
 ہندوستان میں آنے اور اپنی حکومت کے قیام کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ سنہری موقعہ تھا کہ ہندوستانی معاشرے کو جو ذات پات کی تقسیم کی وجہ سے کمزوری اور انتشار کا شکار تھا، نچلی ذات کے افراد کا سماجی رتبہ بڑھا کر ان کی ہمدردیاں حاصل کی جاتیں لیکن ہوا یہ کہ اس کے برعکس انہوں نے ہندو ذات پات کے اثرات کو قبول کر کے اسے اپنے ہاں رائج کیا ۔
اس لئے نیچ ذات کے لوگوں میں اسلام اورمسلمانوں سے کوئی توقع نہیں رہی کہ وہ انہیں باعزت سماجی رتبہ دیں گے۔ ہندوستان میں اسلام نہ پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مسلمان بااقتدار طبقے نےنسلی تفاخر ، خاندان اور ذات پات کی بنیادوں پر معاشرے کو تقسیم کرکے، ادنیٰ اور نچلی ذات کے محروم طبقے کے لئے تمام راستے بند کردیئے ۔
اگرچہ نسل ، خاندان، اور ذات پات کے بت ٹوٹ چکے ہیں لیکن ابھی بھی ان کے پجاری ہمارے معاشرے میں باقی ہیں ان کے نزدیک سماجی و معاشرتی مساوات قیامت سےکم نہیں ۔ لیکن عوامی شعور یہ قیامت پیدا کر کے رہے گا۔ اور نسل خاندان ، اور ذات پات کے بتوں کومکمل تباہ کرکے معاشرے میں مساوات قائم کرے گا۔

No comments:

Post a Comment