Sunday, July 5, 2015

Moral and Cultural Values: The Irony of History اخلاقی و ثقافتی اقدار:المیہ تاریخ







ڈاکٹر مبارک علی
اخلاقی و ثقافتی اقدار
انسانی تہذیب تاریخ اور تمدن کی ترقی کے ساتھ ایک ایساموڑ بھی آیا جب معاشرے کی اقلیت نے اکثریت پر غلبہ حاصل کرکے ان پر اپنا اقتدار قائم کرلیا اقلیت معاشرے کے چنندہ طاقتور اور مضبوط افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔جو اپنا اقتدار اور اپنی قیادت کو قائم رکھنے کےلئے نہ صرف ذرائع پیداوار کو اپنے قبضے میں رکھتی ہے بلکہ معاشرے میں ایسی روایات تصورات نظریات اور اقدار کو بھی فروغ دیتی ہے جو اس کے اقتدار کو مزید مستحکم اور مضبوط بنا سکیں ۔
اگر ہم اپنے معاشرے کی اخلاقی اور ثقافتی اقدار کا تجزیہ کریں تو وہ قدریں تصورات و خیالات ہیں جو اقلیتی با اثر طبقے نے اکثریتی طبقے کو اپنی غلامی میں لانے کے لئے پروان چڑھائے تاکہ اکثریتی طبقہ ذہنی طور پر پسماندہ ہوکر ان کے آگے سرنگوں رہے ان اخلاقی و ثقافتی قدروں کے ذریعے سے ان کو روحانی طور پر مفلوج بنا کر اور ان کے کردار اور شخصیت کو کچل کر بے حس اور بے جان بنا دیا جائے تاکہ ان کا احساس و شعور اور ان کی سوچ و فکر ختم ہوکر رہ جائے ۔
ہمارے معاشرے کی اخلاقی ثقافتی قدوں کی بنیاد حکمران طبقے کی خصوصیات ،ان کے کردار او ران کی خوبیاں ہے۔ یہ فعل لفظ بنیاد سے متعلق ہے مثلاً ہماری زبان میں لفظ شریف کااستعمال ہوتاہے جو کردار کی ایک خوبی اور وصف ہے اور جب یہ لفظ کسی شخص کے بارے میں استعمال ہوتاہے تو اس کا مطلب ہوتاہے کہ وہ شخص کردار اور شخصیت کے لحاظ سے انتہائی نیک اور پاک باز ہے ۔ اگر اس لفظ کی بنیاد کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ ‘‘شرف’’ سے نکلا ہے جس کے معنی ممتاز کےہوتےہیں ۔ اسی سےشریف نکلا، جس کی جمع اشراف ہے ۔ یہ لفظ امراء والیوں اور شہزادوں کےلئے استعمال ہوتا تھا ۔ لہٰذا شریف اور اشراف وہ لوگ تھے جو امیر دولت مند یا صاحب اقتدار ہوا کرتے تھے ۔ اسی حیثیت سے وہ معاشرے میں ممتاز اور بزرگ تھے لہٰذا شرافت و خوبی و صف ہواجس کے حامل معاشرے کےامراء تھے ۔ اگر اس لفظ کو معاشرے کے عام افراد کےلئے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر مہربانی وکرم کر کے اس کو حکمران طبقے کےایک وصف سےنوازا جاتاہے ۔
اسی طرح ایک دوسرے لفظ کا ذکر بھی دلچسپی سےخالی نہ ہوگا ۔ وہ لفظ ہے ‘‘معزز’’ جو ‘‘عز’’ سےنکلا ہے۔ اور اس کے معنی طاقت و قوت کےہیں ۔ یہ لفظ بھی حکمران طبقے کے ایک وصف کو ظاہر کرتاہے، یعنی معزز وہ لوگ ہوئے جو معاشرے میں بااثر اور صاحب اقتدار ہیں ۔
ہمارے معاشرے کے بااثر صاحب ثروت اور حکمران طبقے نےاپنی دولت کاسہارا لے کر ایسی قدروں کو فروغ دیا جس کے ذریعے ان کا تسلط معاشرے پر قائم و دائم ہے۔ ایسی قدریں جن کا فروغ دولت کی وجہ سے وہ ‘‘فیاضی’’ ‘‘شخاوت’’ اور ‘‘ جودوکرم’’ ہیں اور فیاض اور سخی وہی شخص ہوسکتاہے جس کے پاس ضروریات سےزیادہ مال و دولت ہو، اور اس دولت میں سے ایک حصے کو وہ عوام میں ‘‘خیرات ’’ ‘‘عطیے ’’ ‘‘ بخشش’’ اور ‘‘صدقات’’ کا نام دے کر نیک نامی اور شہرت حاصل کرلیتا ہے ۔ ایسے فیاض و سخی اور حاتم طائی لوگوں کی داستانیں سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی ادب و شاعری میں بھی نمایاں مقام حاصل کرلیتی ہیں ۔
اس پس منظر میں جو جذبہ کار فرما نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو ان قدروں کے ذریعے مرعوب کیا جائے اور اپنی عظمت ان سے منوائی جائے اور ساتھ ہی خیرات و بھیک دےکر کسی شخص کی مجبوری و لاچاری اور اس کےدکھوں کو ننگا کیا جائے اور اس ذریعے سےاس کی خودداری غیرت و حمیت کےاحساسات کو زخمی کرکے کچل دیا جائے۔ یہاں تک کہ اس کی پوری شخصیت اعتماد اور کردار کی مضبوطی سےمحروم ہوجائے ۔ ایک بار جب کسی شخص کو ذہنی طور پر مردہ بنا دیا جائے تواس شخص میں جو جہد ، عمل اور کوشش کے تمام جذبات ختم ہوجاتے ہیں اور وہ دوسروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ایسا شخص خود اپنی نظروں میں ذلیل و خوار ہوجاتاہے اور اس کی ہستی معاشرے میں کیڑے مکوڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔
یہ رحم و کرم، یہ سخاوت و فیاضی ، یہ عطا ء و بخشش نہ صرف معاشرے کی اکثریتی طبقے کی صلاحیتوں ، امنگوں، اور جوش وولولے کو ختم کردیتی ہیں ۔ بلکہ ان میں احساس کمتری ، ذلت و خواری، اور بے غیرتی و بے حیائی کو پروا ن چڑھاتی ہیں ۔ ان اقدار سےبا اثر طبقہ اکثریت پر سیاسی و ذہنی تسلط حاصل کرتا ہے۔ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس تسلط سے نجات پانے کی عوام کی جانب سے کوئی کوشش نہیں ہوتی وہ اقداروں کی صحیح حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں ۔
ہمارے معاشرے کی طبقاتی تقسیم میں مالک وملازم ’ آقا و خادم ، سرپرست و زیر دست اعلیٰ و ادنیٰ کی اخلاقی قدریں بھی جدا جدا ہیں ۔ مثلاًؑ ایک خادم اورملازم کےلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آقا کا وفادار ہو اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔ اس کے احکامات کےبے چوں چرا تعمیل کرے یہاں تک کہ ضرورت پڑنےپر اپنے آقا کی خاطر جان تک دے دے۔ خادم میں یہ احساسات و جذبات کیوں پیدا ہوتےہیں؟ اس حقیقت کو سمجھنے کےلئے آقا اور ملازم کی شخصیتوں کو دیکھا جائے :آقا وہ شخص ہے جو اپنے ملازم یا خادم کو معاش فراہم کرتاہے اس کی ضروریات زندگی پوری کرتا ہے ۔ اس کے عوض وہ یہ امید کرتاہے کہ اس کا خادم اس کی اطاعت کرے اس کا وفادار رہے ۔ ایسے خادم کو نمک حلال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اور جو خادم مالک کی وفاداری کے جذبے اور جوش میں قربانیاں دیتے ہیں ان کی مثالیں تاریخ اور ادب میں بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں اور انہیں وفاداری کے پیکر اور ایثار کے مجسمّے بناکر پیش کیاجاتا ہے تاکہ دوسرے اس سے متاثر ہوں اور اپنی جان دینے کے لئے تیار رہیں ۔ آقا اور خادم کے اس لین دین کے پس منظر میں ایک تاجر اور گاہگ والا معاملہ ہے ۔ آقا ایک تاجر ہے جو چند سکوں کے عوض خادم سےاس کی محنت اور زندگی کاسودا کرتا ہے اور اس کو ‘‘وفاداری’’ ‘‘اطاعت گزاری’’ ‘‘جانثاری ’’ اور ایثار کی قدروں سے تقویت دیتا ہے ’ تاکہ اس کی جان و مال اور دولت کی حفاظت کےلئےپاسبان رہیں ۔ ان پاسبانوں میں سے اگر کوئی ذرا بھی مخالفت کرے یا اپنے حق کی بات کرے یا نگہبانی میں کوتاہی کرے تو ایسے شخص کوہمارےہاں ‘‘نمک حرام’’ کہا جاتاہے ۔
اس کے پس منظر میں سوائے اس کے اورکوئی مقصد نہیں کہ اقلیتی دولت مند اور با اثر طبقہ غریبوں پر حکومت کرے اور ذہنی طور پر انہیں ان اخلاقی اور ثقافتی قدروں میں جکڑے رہے تاکہ ان کے خلاف نہ تو کوئی بغاوت ہو اورنہ کوئی آواز اٹھے ۔
جب ہم اپنے معاشرے کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس کے علاوہ دوسرے تصورات خیالات اور اقدار ملتی ہیں جن کی مدد سے طبقاتی تقسیم کو استحکام ملتاہے ۔ مثلاً ہمارے معاشرے میں خاندان کا تصور انتہائی اہم ہے ۔ اس لئے اگر کسی شخص کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ ان کاتعلق شریف، معزز یا صاحب حیثیت گھرانے سےہے یا بڑے خاندانی آدمی ہیں تو ان صاحب کی بڑائی کےلئے کافی ہے۔ کیونکہ اعلیٰ یا بڑے خاندان میں سوائے نیکی پاکبازی ،شرافت ، شر م وحیا اور دوسری خوبیوں کےاورکچھ ہوہی نہیں سکتا ۔
اس لئے اس موقع پرغور کرنے کا مقام ہے کہ آخر یہ خاندان کیا ہے؟ اور خاندان کے ساتھ جو یہ اضافی الفاظ لگائے جاتے ہیں یعنی شریف اور اعلیٰ یہ کیا ہے؟
ہمارے ان سوالوں کا جواب ہمیں معاشرے کی طبقاتی تقسیم کی جانب سے مل جاتا ہے وہ تقسیم جو دولت و طاقت اور اقتدار کی بنیاد وں پر ہوتی ہے یعنی اعلیٰ شریف خاندان وہ ہوتا ہے جس کے پاس دولت و طاقت ہو اور جس کے پاس اقتدار ہو۔ اس کے مقابلے میں غریب اور مفلس کا بھی خاندان ہوتاہے ۔ مگر ‘‘خاندانی آدمی’’ نہیں ہوتا ۔ خاندانی ہونے کا شرف  ہمارے معاشرے میں ہر شخص کونہیں بلکہ یہ ان محدود افرادکو ہے جن کاحسب و نسب اور جن کا خاندانی شجرے انہیں دوسرے لوگوں سے ممتاز کریں ۔ اس لئے معاشرے میں وہ شخص شریف اور معزز کہلانے کا مستحق نہیں جس کا خاندان اور حسب ونسب اعلیٰ نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہو ا کہ ہر وہ شخص جو دولت مند و اقتدار سےمحروم ہو وہ مجہول النسب شخص ہے ۔ اور ہر وہ شخص جوکھاتے پیتے گھرانے سے ہو معاشرے میں عزت کا مستحق ہے۔
 مذہب، سرمایہ اور اقتدار کی بنیادوں پر بننے والے یہ خاندان وہ استحصال قوتیں ہیں جو خود کو معاشرے کے دوسرے افراد سے افضل گردانتے ہیں اورلوٹ کھسوٹ میں پیش پیش ہوتےہیں ۔ مذہبی بنیادوں پر قائم شدہ خاندان سیدو، صوفیوں ، پیروں اور درویشوں کےہیں سرمایہ اور اقتدار کی بنیاد والے خاندان جاگیرداروں ، زمینداروں ، سرمایہ داروں ، اعلیٰ عہدے داروں اور افسروں کے ہیں ۔ یہ سب مل کر معاشرے میں خواص کا طبقہ پیدا کرتے ہیں ۔
خاندان کے تصور کو مزید مستحکم اور مضبوط بنانے کے لئے ہمارے معاشرے میں ایک اور اہم تصور ‘‘خون کی پاکیزگی ’’ کا بھی ہے۔ ہمارے ہاں اس بات پر یقین کیاجاتاہے کہ جس کی رگوں میں ‘‘شریف خون’’ گردش کرتاہے وہ ہمیشہ صاحب کردار ہوتا ہے یہ خون کی پاکیزگی کیاہے؟ یعنی وہ خون جس میں عوامی خون کی آمیزش نہ ہو اور صرف اس طبقے کاخون ہو جو خود کو اعلیٰ ممتاز شریف اور معزز کہلاتا ہے یہ اس بات کی کوشش ہے کہ ہمارے معاشرے میں طبقاتی تقسیم مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم رہے۔
خون کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ صاحب اقتدار طبقے ‘‘ زبان کی پاکیزگی ’’ پر بھی زور دیتا ہے ۔ مثلاً اردو زبان میں ‘‘اردوئے معلیٰ اور بازاری زبان’’ کےفرق کودیکھئے ۔ اردوئے معلیٰ شہزادوں اور امراء کےخاندانو ں میں دھل کر سجی سجائی اور نکھر کر آئی ہے۔ اس لئے یہاں کےاستعمال شدہ محادوے ،الفاظ اور ضرب الامثال معیاری ہیں ۔ اس کے مقابلے میں بازاری زبان ہے۔ چونکہ بازار ہمارے معاشرتی پس منظر میں عوامی علامت ہے اس لئے بازاری ذہن ، بازاری بات چیت اور بازاری خیالات وہ فقرے ہیں جو کسی شخص کی پست اور حقیر ذہنیت کے اظہار کےلئے بولے جاتےہیں ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری زبان میں ایسے الفاظ محاورے اور روز مرہ کا استعمال ہوتاہے کہ جو ارباب اقتدار طبقے کوظاہر کرتاہے ۔ اور ہر موڑ پر معاشرتی تقسیم کی تلخ حقیقت کا احسا س دلاتا ہے ۔مثلاً خواص و عام ، اعلیٰ و ادنیٰ ، افضل و اسفل، برتر و کمتر ، شریف و رذیل ، معزز و حقیر اور امیر و غریب وغیرہ ان میں سے وہ الفاظ جو بااثر طبقے کےلئے استعمال ہوتے ہیں ان کے معنی اور استعمال میں خصوصیت ہے۔ مثلاً ‘‘خواص’’ اور ‘‘ عام’’ کامفہوم ہے اس شئے کےلئے ہوتاہے جو قدر و قیمت کےلحاظ سے اعلیٰ و قیمتی ہو۔ یا وہ چیز جو دوسروں سےممتاز ہو۔ اس کے مقابلے میں ‘‘عام’’ وہ چیز ہے جس کی کوئی اہمیت اور قدر نہیں ۔ اسی مناسبت سےافضل و برتر ، شریف و معزز اور امیر وہ الفاظ ہیں جو مفہوم کے لحاظ سے ایک محدود طبقے کی افضلیت کو ہمارے روز مرہ اور بول چال میں ظاہر کرتے ہیں جب کہ نچلا اسفل کمتر ، زیر دست ، رذیل اور حقیر وہ الفاظ ہیں جو معاشرے کےاکثریتی طبقے کےلئے استعمال ہوتے ہیں ۔
اس کانتیجہ یہ ہے کہ ذہنی طور پر اکثریتی طبقے نے صرف اس طبقاتی تقسیم کو قبول کرلیا ہے ۔ بلکہ ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس اقلیتی طبقے کاایک رکن بن جائے ۔ ہمارے معاشرے میں اگر یہ شرف کسی کو حاصل ہوجائے تو یہ اس کی زندگی کی معراج ہوتی ہے۔ اگر چہ ایسے شخص کےلئے جس کا تعلق نچلے طبقے سےہو اور دولت و ثروت کی بنیاد پر وہ اعلیٰ طبقے میں شامل ہوناچاہئے اور ان کے طور طریق او ر عبادت کواختیار کرے تو ایسے شخص کاپہلے پہلے ‘‘نو دولتی’’ کہہ کر مذاق اڑایا جاتاہے ۔ اور ‘‘کوّا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا’’ والی کہاوت بھی کی جاتی ہے۔
معاشرے کی اکثریت جو اس طبقے کی حدوں سے بہت دور رہتی ہے ،بعض اوقات خود کو ذہنی طور پر مطمئن رکھنے کے لئے اپنے ایسے نام رکھ لیتے ہیں جو ان کی اعلیٰ سے وابستگی اور مرعوبیت کو ظاہر کرتےہیں ۔ مثلاً شہنشاہ ، بادشاہ ، شہزادہ، شہزادی ، ملکہ، ثروت، راجہ اور رانی وغیرہ۔
 یہ ایک حقیقت ہے کہ ان اخلاقی اور ثقافتی اقدار کے سہارے حکمراں اور با اقتدار طبقے نے معاشرے میں اپنا تسلط قائم کیا اور حکومت کی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان اخلاقی قدروں کی بنیاد ایک طبقے سےوابستہ ہے۔ اس لئے ان قدروں کو آفاقی یا ابدی کہنایا انہیں حق اور سچائی قرار دینا سوائے دھوکےاور فریب کےکچھ نہیں ۔ اس کے پس منظر میں حکمران طبقے کی اس کوشش کے سوا اور کچھ نہیں کہ ان کی مدد سے عوام کے ذہنوں کو مسخر کیا جائے ، ان کی فکر کو محدود کیا جائے اور ان کی صلاحیتوں کی نشو و نما کو روکا جائے تاکہ معاشرے میں ان کے تسلط کے خلاف کوئی مزاحمت نہ ہو۔ جب اس مزاحمت کا فقدان ہوگا تو آسانی سےعوام پر حکومت کی جاسکے گی۔

No comments:

Post a Comment