Tuesday, June 3, 2014

Rising Hopes for an End to Extremism شدت پسندی کے خاتمے کی بڑھتی ہوئی اُمید



مجاہد حسین، نیو ایج  اسلام
31 مئی 2014
قبائلی علاقوں میں سیکورٹی اہلکاروں پر حملوں میں شدت آرہی ہے اور امکان یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس نوعیت کے حملے بڑھ جائیں گے کیوں کہ طالبان دھڑوں میں جاری کش مکش اور گروہ در گروہ بٹے ہوئے شدت پسندوں کی شناخت کا مسئلہ پیدا ہونے لگا ہے۔سادہ نظر سے دیکھیں تو دشمن میں اس طرح کی پھوٹ سود مند تصور کی جاتی ہے لیکن طالبان شدت پسندوں کے معاملے میں اس نوعیت کی پھوٹ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لیے مزید پیچیدگیوں کی حامل ہے۔دوسری طرف ابھی تک جو حقائق ہمارے سامنے آئے ہیں اُن کے مطابق تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہوجانے والے کئی گروہ، جن کے بارے میں یہ بھی تصور کیا جاتا تھا کہ وہ پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں،رفتہ رفتہ اپنی اہمیت اور طاقت کھو بیٹھے اور یا تو اِنہیں دوبارہ تحریک طالبان کے مرکز کی طرف پلٹنا پڑا یا پھر اِن کی تنظیمی اہلیت ختم ہوگئی اور اُس کی افرادی قوت پھر واپس اُس مرکز کے ساتھ جا کر مل گئی جس سے وہ الگ ہوئی تھی۔اس صورت حال کی اصل وجہ تحریک طالبان پاکستان پر غیر ملکی شدت پسندوں کا غلبہ ہے جو عام شدت پسندوں سے بالکل الگ سوچ کے حامل ہیں اور ریاست پاکستان کے بارے میں اِن کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں۔ اُن کی اکثریت افغان جنگ کے دور سے برسر پیکار ہے اور القاعدہ کے ساتھ اُن کی روابط بہت گہرے ہیں۔مقامی سطح پر بھی اُن کی رشتہ داریاں موجود ہیں لیکن اُن کی اصل طاقت اپنے اپنے ممالک میں متمول اور مخیر افراد اور تنظیمیں ہیں، جو اُنہیں جہاد کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہیں اور اُن کی مقامی طور پر تکریم موجود رہتی ہے۔چوں کہ ایسے غیر ملکی شدت پسند اپنے گروہ کے لیے مالی امداد کا بندوبست کرتے ہیں اس لیے اِنہیں گروہ کے اندر ایک خاص مقام حاصل ہوجاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment