Thursday, July 9, 2015

The Etiquette of an Assembly: The Irony of History مجلس آداب :المیہ تاریخ







ڈاکٹر مبارک علی
مجلس آداب
جاگیردار انہ معاشرے میں تہذیب و تمدن اور ثقافت کی ترقی و نشو نما ایک مخصوص طبقے کے مفادات کے تحت ہوتی ہے ۔ ان ثقافتی اقدار میں اس طبقے کی ذہنیت کی پوری پوری عکاسی ہوتی ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ طبقاتی معاشرے میں مختلف طبقوں کی ثقافتی اقدار جدا جدا ہوتی ہیں ۔ ہم جس ثقافت کو معاشرے کی نمائندہ ثقافت کہتےہیں، اس کا تعلق خواص کےطبقے سے ہوتاہے خواص کا یہ طبقہ معاشرے میں اپنے استحکام اور عظمت کےلئے کوشاں رہتا ہے اور ہر ذریعے کو اس مقصد کےلئے استعمال کرتاہے۔
اس ضمن میں مجلسی آداب بھی آتےہیں ۔ ان آداب میں نشست و برخاست بات چیت و گفتگو ، کھانا پینا، میل جول، اور سلام و دعا دشامل ہیں ۔ اس لئے ایک ایسے طبقاتی معاشرے میں جہاں ہر شخص اپنی حیثیت سے واقف ہوتاہے اعلیٰ و بر تر طبقے کے لوگ مجلسی آداب کے ذریعے کمتر اور نچلے طبقے کو احساس کمتری میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں ۔
 مثلاً جب ہمارے معاشرے میں بادشاہی نظام تھا تو اس وقت بادشاہ کےدربار میں ہر شخص کےلئے ضروری تھا کہ وہ بادشاہ کو سجدہ کرے، ا س کے ہاتھ پیر چومے اس کے سامنےبار بار جھکے، اس کی موجودگی میں خاموشی کےساتھ کھڑا رہے جاتے وقت اس کے سامنے  پیٹھ نہیں کرے دربار کے آداب اور رسومات کامقصد صرف یہ تھاکہ رعایا میں بادشاہ کی عظمت و ہیبت بیٹھ جائے۔
بادشاہ کے بعد امراء اور عہداروں کاطبقہ تھا جو اپنے مرتبے اور منصب کے لحاظ سے کئی درجوں میں تقسیم تھا اس درجے بندی کےتحت مجلسی آداب کی بھی تشکیل ہوئی ۔ مثلاً اگر ایک اعلیٰ درجے کے امیر اور اس سے کم درجے کے امیر کی ملاقات ہوتی تو اعلیٰ درجے والا اپنی نشست پر بیٹھا رہتا اور کھڑے ہوکر استقبال نہ کرتا جب کہ اگر مساوی درجے کاکوئی امیر آتا تو اس کاکھڑے ہوکر استقبال کیا جاتا اور اسے برابر اپنے ساتھ مسند پربٹھا تا اس کی مناسب خاطر تواضع کی جاتی اور رخصت کے وقت اسے دروازے تک چھوڑنے جاتا۔
امراء اور عوام کے درمیان آداب میں اور بھی فرق نمایاں تھا مثلاً رعیت کے ہر فرد کے لئے لازمی تھاکہ وہ انہیں دیکھ کر فوراً جھک کر آداب کرے اگر وہ کوئی مدعا لے کر آیا ہے تو خاموشی سےاس بات کا انتظار کرے کہ اسے بولنے کاموقع دیا جائے اپنا مدعا بیان کرنے کے بعد اس کا محفل میں ٹھہرنا ضروری نہ تھا اس بات کا خیال رکھا جانا تھاکہ تسلیم و آداب میں نچلے درجے کا فرد پہل کرے۔ اور محفل میں ان کی موجودگی میں اس کا کھڑا رہنا آداب میں سے تھا انداز تخاطب میں بھی ضروری تھاکہ جب بولے تو ہاتھ جوڑ کر اپنی عرض پیش کرے اور مخاطب کرتے ہوئے عہد ے کے لحاظ سے القاب و آداب کا استعمال کرے۔مثلاً حضور، جناب عالی ،اعلیٰ حضرت، عالم پناہ، اور جناب والاوغیرہ اپنی عرض پیش کرتے ہوئے ضروری تھاکہ اول اس کی تعریف میں چند جملے کہے۔ جیسے : خدا حضور کو سلامت رکھے، یا جناب کو زندگی بھر دعائیں دیتا رہوں گا ، اپنی عرض داشت کے ساتھ یہ بھی کہتا جائے کہ ‘‘اگر حضور کو ناگوار خاطر نہ ہوتو عرض کروں’’ وغیرہ وغیرہ اسی طرح درخواستوں اور عرض داشتوں میں القاب و خطابات کاایک خاص طریقہ تھا کہ ہر عہدیدار کواس کے عہدے اور منصب کے اعتبار سے خطاب کیا جائے ۔ آخر میں درخواست گزار خود کو ‘‘فدوی’’ یا خاکسار لکھتا تھا ۔
مجلسوں کے علاوہ شہر ،بازار، اور شاہراہ پر اگر کسی اعلیٰ افسر، جاگیردار اور منصب دار کی سواری گزرتی تو اس وقت بھی عام لوگوں پر فرض تھاکہ وہ فوراً اس کےلئے راستہ چھوڑ دیں اور سڑک کےکنارے کھڑے ہوکر آداب و تسلیمات بجالائیں ۔
اس پس منظر سےیہ بات واضح ہوکر ہمارے سامنے آتی ہے کہ وہ مجلس آداب و ثقافتی  قدریں تھیں جو ایک طبقے نے اپنی برتری کو قائم رکھنے کے لئے وضح کیں ۔ یہ وہ نفسیاتی حربے تھے کہ جنہوں نے عام آدمی کی خودداری، احساس نفس اور انا کو کچل کر رکھ دیا اور ان آداب نے عوام میں جرات و ہمت ،بہادری ، اور عزت کے احساس کوختم کرکے انہیں بے حس اور بے غیرت بنا دیا کیونکہ اسی صورت میں اقلیتی طبقہ ان پر حکومت کرسکتا تھا ۔
مغلیہ سلطنت کے بعد جب انگریز ہندوستان میں آئے تو انہوں نے بھی ان آداب کو برقرار رکھا ۔ کیونکہ یہ ان کی حکومت اور اقتدار کے لئے ضروری تھے آزادی کے بعد بھی ہمارے معاشرے میں وہی طبقات ادارے اور ثقافتی قدریں رہیں اور ان مجلسی آداب کے ذریعے طبقاتی تقسیم کو قائم رکھا گیا۔
لیکن عوام میں اب شعور بیدار ہورہاہے کہ مجلسی آداب طبقاتی بنیادوں پرنہیں بلکہ انسانیت اور مساوی بنیادوں پر ہونے چاہئیں ۔یقین ہے کہ آج کے جمہوری دور میں یہ طبقاتی بنیادیں شکست خوردہ ہوکر مسمار ہوجائیں گی ۔

No comments:

Post a Comment