Tuesday, July 7, 2015

Generosity and Liberality: The Irony of History فیاضی و سخاوت :المیہ تاریخ







ڈاکٹر مبارک علی
فیاضی و سخاوت
قرون وسطیٰ کاہندوستان معاشرہ ،جاگیردار اور رعیت پر مشتمل تھا ۔ ملک کی زراعتی زمین جاگیر کے طور پر حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں اور افسروں میں تقسیم کردی جاتی تھی۔ زمین کا ایک بڑا حصہ ‘‘خالصہ ’’ کے نام سے بادشاہ کےلئے مخصوص تھا جس کی آمدنی سےاس کےاخراجات پورے کئے جاتے تھے ۔ زمین کی اس آمدنی سے بادشاہ اور جاگیردار طبقہ ایک خاص تہذیب و ثقافت کی بنیاد رکھتا ۔فن تعمیر ،موسیقی ، مصوری، خطاطی اور شعر و ادب کی ترقی اسی طبقے کی مدد کی وجہ سے تھی ۔ اس طبقے    کے شان و شوکت اور عزت بڑھانے کی خاطر فیاضی کا تصور پیدا ہوا تاکہ اس طبقے کو استحکام مل سکے ۔فیاضی کاتصور ہی اس معاشرے کی پیداوار ہے جہاں معاشی نا ہمواری اور بعد ہو، جہاں امارت اور غربت ہواو رجہاں دولت کی بنیاد پر ایک طبقہ اقتدار اور اپنی برتری قائم کرے اور فیاضی و سخاوت کی قدروں کے ذریعے غریب و مفلس طبقے کو ذہنی طور پر اپنا غلام بنائے ۔
لیکن دولت خواہ استحصال او رلوٹ مار کےذریعے ہی کیوں نہ آئی ہو اسے آسانی سے جدا کرنے پر کوئی بھی تیار نہیں ہوتا ۔ اس لئے دولت کے خرچ کےلئےمذہب اور اخلاق کا سہار لیا گیا ۔ ایک طرف تودوسری دنیا میں اسے دوگنی اور چوگنی آمدنی کا یقین دلایا گیا تو دوسری طرف اس دنیا سےحاتم طائی کی نیک نامی وشہرت کا آسرا دیا گیا ۔ چنانچہ نیک نامی و نام و نمود کی خواہش نےفیاضی و سخاوت کی قدروں کی پرورش کی اس کی مثال اس ادب سے مل سکتی ہے جو اس زمانے میں تخلیق ہوا: اس میں فیاضی و سخاوت جو دو کرم اور عطا بخشش کی خوبیوں کی بڑےدلکش انداز میں تلقین کی گئی ہے ۔ بادشاہ امرا ء جو اس صف کے حامل تھے ان کی فیاضی کےقصے بڑے آب و تاب سےمعاصر کی تاریخوں میں لکھے گئے ہیں اور بعض تو ان میں اپنی سخاوت کی وجہ سے لافانی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔
ہمارے مورخین نے اس قسم کے واقعات کوبڑے فخر سے پیش کیا ہے جہاں بادشاہوں اور امراء نے فقیروں اور محتاجوں میں روپیہ تقسیم کیا،ان کے لئے لنگر خانے کھلوائے ، مہمان خانے اور سرائے تعمیر کرائیں ، بیوہ عورتوں کی نگہداشت کی ، غریب لڑکیوں کی شادی کاانتظام کیا ،مفلسوں میں کمبل اورکپڑے تقسیم کرائے اور ان کے وظیفے مقرر کئے وغیرہ وغیرہ ۔ان واقعات کو لکھتے وقت بادشاہوں او رامراء کی تعریف و توصیف مقصود تھی۔ لیکن انہوں نے یہ انداز ہ لگایا کہ یہی واقعات تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کرتےہیں یعنی : معاشرے میں مفلسی و غربت تھی، لوگ ایک وقت بھی پیٹ بھرکر نہیں کھاسکتے تھے،غریب اپنی لڑکیوں کی شادی کے وقت جہیز کاانتظام نہیں کرسکتے تھے’، مفلسوں کو موسم سرما میں کمبل خریدنے کی استطاعت نہیں تھی ۔لنگر خانوں سے آج بھی وہ تصور ابھر کر سامنے آتا ہے جہا ں ہزاروں کی تعداد میں عورتیں بچے اور مرد کھانا حاصل کرنے کی کوشش میں ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہوں گے فیاضی و سخاوت کی داستانوں کے اس پس منظر میں عوام کی غربت ، مفلسی محتاجی لاچاری اور مفلسی کے دکھ جھلکتے ہیں ۔
مثلاً فیروز شاہ تغلق نے 120 خانقاہیں تعمیر کرائیں جہاں ایک خانقاہ میں مہمان تین دن تک ٹھہر سکتا تھا ۔ اس طرح لوگ 120 خانقاہوں میں رہ کر ایک سال پورا کرلیتے تھے ان کی زندگی انہی خانقاہوں میں گزر جاتی تھی ۔
غریبوں اور محتاجوں کے لئے لنگر خانے قائم کرنے کے عام رواج تھا جہاں سے انہیں پکا پکایا کھانا اور خام غلہ ملا کرتا تھا ۔ جہانگیر نے بڑے بڑے شہروں میں مثلاً احمد آباد ، الہ آباد ، لاہور، آگرہ اور دہلی میں لنگر خانے قائم کرائے ۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان شہروں میں مفلس اور بیکار لوگوں کی اس قدر تعداد موجود تھی کہ ان کےلئے لنگر خانے کھولنا ضروری ہوگیا تھا ۔ دیہات اور قصبے کے لوگوں کاکیا حال ہوتا ہوگا اس کااندازہ لگانے کے لئے کسی نے کوشش کی نہیں لیکن قحط کے زمانے میں دیہات میں بھی لنگر خانے قائم کردیئے جاتے تھے ۔
شاہ جہاں کی دولت مندی اور خوشحالی کےتذکرے معاصرین کی تاریخ میں بہت ملتے ہیں اسی لئے اس عہد مغلیہ کا سنہری دور کہا جاتاہے اس سنہری دور کی مثالیں آج بھی تاج محل اور لال قلعہ کی شکل میں موجود ہیں جب کہ اس عہد میں مفلس و غریب عوام بھوک و فاقہ کے ہاتھوں خاموش سے زمین کی آغوش میں پنہا ں ہوکر مٹ گئے اور اپنی مفلسی کے نشانات بھی اپنے ساتھ لے گئے اس سنہری دور میں دکن اور گجرات میں جب قحط پڑا تو رحمدل بادشاہ نے برہان پور ، احمد آباد اور سورت میں لنگر خانے قائم کرائے اور دو شنبہ کو جو شاہ جہاں کی تخت نشینی کا دن ہونے کی وجہ سے مبارک تھا 20 ہزار روپیہ روزانہ کے حساب سے 5 مہینے تک تقسیم کرایا ۔ اس خوشحالی کے زمانے میں جب کشمیر میں قحط پڑا اور تقریباً 30 ہزار لوگ فریادی بن کر دارالحکومت میں آئے تو شاہجہاں نے ان میں ایک لاکھ روپیہ تقسیم کرایا اسی عہد میں ایک قحط پنجاب میں پڑا او رلوگوں کی حالت اس قدر خراب ہوئی کہ انہوں نے اپنی اولاد تک کو بیچ ڈالا بلکہ بعض نے تو اپنے بچوں کو ذبح کرکے کھالیا ۔ چنانچہ یہاں لنگر خانے قائم کرکے دو ہزار روپیہ روزانہ خرچ کیا گیا۔
اورنگ زیب کے زمانے میں جب کہ مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی اس وقت معاصرین مورخین یہ بھی لکھ رہے تھے کہ قحط اور گرانی کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ علاقے ویران اور برباد ہوگئے تھے اور دارالحکومت میں مفلس عوام کا اس قدر ہجوم ہوجاتا تھا کہ راستے بند ہوجاتےتھے ۔
بادشاہوں کے علاوہ امراء کی فیاضی کی داستانیں بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں ۔ بلبن کےزمانے میں فخرالدین کوتوالا کا یہ دستور تھاکہ وہ جو لباس ایک بار پہنتا تھا اسے دوبارہ استعمال نہیں کرتا تھا اور انہیں غریبوں میں تقسیم کردیتا تھا اس کے بارے میں مشہور ہےکہ ہر سال ایک ہزار غریب لڑکیوں کو جہیز دیا کرتا تھا ۔
فیروز شاہ تغلق نے غریب لڑکیوں کی شادی کےانتظام کے لئے ایک باقاعدہ محکمہ قائم کردیاتھا جہاں ہزاروں نادار لڑکیوں نے اپنے نام لکھوارکھے تھے ۔شاہ جہاں نے بھی اس روایت کو باقی رکھا۔
تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ملک میں لاچار وں ، اپاہجوں اور معذوروں کی کافی تعداد موجود تھی۔ مثلاً: محمود شاہ بہمنی نےجب اندھوں کے لئے وظائف مقرر کئے تو غریب لوگوں نے قصداً اپنی آنکھیں پھوڑ لیں تاکہ انہیں وظیفہ مل جائے ۔
گجرات کے سلطان محمود شاہ کےبارےمیں مشہور ہے کہ وہ سردی کے موسم میں غریبو ں میں لحاف تقسیم کرتا تھا سردی سےبچاؤ کےلئے یہی بادشاہ راتوں کو گلیوں میں بازاروں میں آگ جلواتا تھا ۔ اورنگ زیب جاڑے میں صرف صوبہ احمد آباد میں ہر سال ڈیڑھ ہزار قبائیں اورڈیڑھ ہزار کمبل تقسیم کراتا تھا ۔ جب کہ قبا کی قیمت ڈیڑھ روپیہ اور کمبل کی آٹھ آنے ہوا کرتی ۔ اس ارزانی کے باوجود غریبوں میں ان کے خریدنے کی سکت نہیں تھی ۔
فیاضی و سخاوت کے اس قسم کے لاتعداد واقعات تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں اگر ان واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ہمارے ملک میں ہندوستان کی خوشحالی کی تصویر ہمیشہ رخ سےپیش کی گئی جب کہ اس ملک کی اکثریت ہمیشہ غریب ومفلس رہی اس کی تصدیق خیرات بخشش ،صدقات و عطیات کے واقعات سے ہوجاتی ہے ۔ مثلاً اکبر نے ایک زمانے میں ارادہ کیاکہ ایک مخصوص دن لوگوں میں خیرات کرے اس اعلان کےبعد پہلی مرتبہ لال قلعہ کے سامنے اس قدر ہجوم ہواکہ کئی لوگ مجمع میں روند ڈالے گئے ۔ اکبر اس منظر سے اس قدر متاثر ہواکہ اس نےاس طریقے کو ختم کردیا ۔ آج جب ہم تاریخ کےصفحات پر ان بادشاہوں اور ان امراء کی فیاضی و سخاوت کے تذکرے پڑھتے ہیں تو ان واقعات کے پس منظر میں عوام کی مفلسی و عسرت کی ایک اندوہناک اور دکھ بھری تصویر بھی ابھر کر آتی ہے ۔ لیکن ہم صرف عالیشان مسجدوں، مقبروں ، محلات اور شاہی عمارتوں کو دیکھ کر یا اس دور کی شاعری پڑھ کر یا موسیقی و مصوری کےفن پاروں کو دیکھ کر اس دور کے بارےمیں یہ رائے قائم کرلیتے ہیں کہ ، ہندوستان میں خوش و فارغ البالی تھی اور یہاں دولت کی ریل پیل تھی ۔ ہمیں بادشاہوں اور امراء کی سخاوت کی داستانیں بڑی دلکش نظر آتی ہیں ، لیکن افسوس کہ تصویر کا دوسرا رخ ہم نہیں دیکھ پاتے ۔ ہماری تاریخ میں بادشاہوں امراء اور جاگیرداروں تک تذکرے توہیں مگر ان میں غریبوں کی آواز شامل نہیں ہے۔

No comments:

Post a Comment