Wednesday, July 8, 2015

Faithfulness: The Irony of History نمک حلالی:المیہ تاریخ



  



ڈاکٹر مبارک علی
نمک حلالی
نمک حلالی کا تصور ایک خاص سماجی و اقتصادی اور سیاسی صورت حال کی پیداوار ہےجسے جاگیر دارانہ نظام میں حکمران اور بااقتدار طبقے نے اپنے مفادات کے تحفظ اور اقتدار کے استحکام کےلئے جنم دیا کیوں کہ حکمران طبقے کو ہمیشہ اپنے نظام کی بنیادوں کے لئے اخلاقی اور مذہبی نظریات اور قدروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا نمک حلالی کا تصور بھی انہیں بنیادوں میں سے ایک تھا جس پرقرون وسطیٰ کے جاگیردارانہ معاشرے کی بنیاد رکھی گئی ،نمک حلالی کی اخلاقی قدر نے با اقتدار طبقے کی اس موقع پر حفاظت کی جب مذہب بھی ان کی مدد نہیں کرسکتا تھا۔ اس لئے اس سے جو نتائج پیدا ہوئے تاریخ میں وہ دور رس ثابت ہوئے۔
قرون وسطیٰ میں اقتدار کی جنگ شخصی اور خاندان کی بنیاد پر لڑی جاتی تھی اس جنگ میں مذہب کو اس وقت استعمال کیا جاتا تھا جب کہ مخالف کا تعلق دوسرے مذہب سےہوا کرتا تھا لیکن اگر مخالف کا تعلق بھی اس مذہب سےہو تو اس صورت میں کسی دوسرے تصور اور نظریئے کی ضرورت پڑتی تھی۔
ہندوستان میں مسلمانوں نےابتدائی زمانے میں مذہب کو ہندوؤں کے خلاف استعمال کیا۔ لیکن جب مسلمان جاگیر داروں اور امراء میں طاقت کے حصول کی خاطر جنگیں ہوئیں اور ان کی ملازمتوں میں ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ آئے تو پھر کسی ایسے نظریے کی تلاش ہوئی جسے ایک فرد یا خاندان کو ان کے لئے استعمال کیا جا سکے ۔ چنانچہ یہ وہ مخصوص حالات تھے جن میں نمک حلالی کا تصور ایک نئے انداز سےپیدا ہوا ۔ جس کے تحت ایک خادم یا ملازم کو اخلاقی طور پر اس کا پابند کیا گیا کہ وہ اپنے مالک یا آقا کے ساتھ وفادار رہے اور اس کے خاندان کی خدمت خلوص دل سے کرے۔ اور اگر ضرورت پڑے تو ان کی خاطر اپنی جان بھی قربان کردے۔ نمک حلالی کا یہ نظریہ ایک لحاظ سے مذہب سے بھی زیادہ وسیع تھا کیونکہ وفاداری اور نمک حلالی میں ہر مذہب و قوم اور نسل کا آدمی شریک ہوسکتا تھا ۔
نمک حلالی کایہ تصور ہمارے سامنے معاشرے کی اقتصادی و معاشی حالت کی ایک دردناک تصویر پیش کرتا ہے ۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں غربت و امارت کی بنیادوں پر انسانوں کو مختلف طبقوں میں تقسیم کیا جاتا تھا ۔جہاں دولت صرف امراء اور جاگیرداروں میں محدود ہوکر رہ گئی تھی اور جہاں دولت کے سہارے ان غریب انسانوں کے سودے ہوا کرتے تھے ۔ جاگیردار طبقہ انہیں دولت اور اقتدار کی بنیاد پر ملازمت فراہم کرتا تھا اور یہ تو قعہ رکھتا تھاکہ اس کے عوض وہ صرف اس کے وفادار ہوں گے اور ایک بار اس کانمک کھانے کے بعد ہر مفاد کو قربان کرکے، صرف اپنے مالک کے مفاد کو مقدم رکھیں گے یہ حقیقت ایک تاجر اور گاہک کا سودا تھا جہاں جاگیر دار تاجر چند سکوں کے عوض غریب گاہک کے جسم و جان پر قابض ہوجاتا تھا ۔لہٰذا نمک حلالی ، شخصی وفاداری کانام تھا اس کو مزید تقویت دینے کے لئے مذہب ،اخلاق اور ادب کا سہار لیا گیا۔ اس سے روگردانی کرنےوالا معاشرے میں ‘‘نمک حرام’’ کے نام سے مشہور ہوا ۔ جو کسی بھی شخص کے لئے انتہائی باعث شرم تھا ۔
اس ضمن میں صرف جاگیردار طبقے کے نقطہ نظر کو سامنے رکھا گیا او رملازم کے خیالات کو کوئی وزن نہیں دیا گیا۔ یعنی اگر ملازم نے مالک کے سلوک، اس کی بے رحمی، یا اس کے استحصال سے مجبور ہوکر اس کی ملازمت چھور دی تواس صورت میں بھی قصور وار ملازم ہی ٹھہرے گا ۔ کیونکہ اس سے توقع یہ رکھی جاتی تھی کہ وہ بے چوں چرا مالک کی خدمت کرے اور اس کا وفادار رہے۔ اس اصول کی بناپر اگر کوئی شخص ایک مرتبہ کسی کے در دولت سے وابستہ ہوگیا تو پھر اس کا دوسرے در پرجانا معاشرے میں تذلیل کا باعث تھا ۔
بادشاہ امراء اور جاگیردا ر طبقے نے ان کےسہارے بڑی بڑی بغاوتوں کو کچلا شورشوں کو ختم کیا اوراپنے مفادات کا تحفظ کیا اگر کسی نے مصیبت کے وقت ان کا ساتھ چھوڑا تو ایسے شخص کو معاشرے میں ذلیل سمجھا گیا اس کی مثال گجرات کے بادشاہ ، بہادر شاہ کے امیر ردی خان کی ہے ۔ جو ہمایوں کے ساتھ جنگ کےدوران اس کی ملازمت چھوڑ کر ہمایوں سے جا ملا۔ اس پر اسے ہر طرف نمک حرام کہا گیا ۔ یہاں تک کہ بہادر شاہ ظفر کا طوطا بھی اسے دیکھ کر ‘‘نمک حرام رومی خاں’’ کی رٹ لگانے لگتا تھا ۔
لیکن جو لوگ مصیبت کے وقت میں مالک کے وفادار رہتے تھے ۔انہیں تاریخ میں عظیم ہیرو کی حیثیت سےپیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اورنگ زیب نے جب گولکنڈہ پر حملہ کیا تو وہاں کے بادشاہ ابوالحسن کی فوج کی ایک جنرل نے جس کا نام عبدالرزاق تھا مغلوں کا بڑی بہادری سےمقابلہ کیا۔ جب وہ زخموں سے چور ہوکر گرفتار ہوا تو اورنگ زیب نے اس کی بہادری سےمتاثر ہوکر اسے مغلیہ فوج میں اعلیٰ منصب کی پیش کش کی۔ لیکن اس نے کہا کہ اگر اسے دوبارہ زندگی مل گئی تو وہ پھر اپنے مالک کی خدمت کرے گا کیونکہ اس نےاس کا نمک کھایا ہے۔
مغلیہ سلطنت کےزوال کےوقت جب پورا ہندوستان مرہٹوں ،جاٹوں اور سکھوں کی شورش سےپریشان تھا تو اس وقت ہر سردار کی فوج میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوا کرتےتھے چنانچہ پانی پت کی تیسری جنگ میں جس میں مرہٹوں اور احمد شاہ ابدالی کا مقابلہ ہوا ۔ اس وقت مرہٹہ توپ خانے کا انجارج ایک مسلمان ابراہیم گاردی تھا جو آخر ی وقت تک ان کی جانب سے لڑا۔
انگریزوں نے جب ہندوستان میں اپنی فوج کی بنیاد ڈالی اور ہندوستان کے باشندوں کو اپنی فوج میں شامل کرلیا تو ہندوستانیوں کی برطانوی فوج میں شمولیت اور ان کی خاطر اپنے ہم وطنوں سے جنگ کرنے میں نمک حلالی کا نظریہ تھا جو مذہب ،ملک، اور قوم سے زیادہ ان پر غالب رہا۔
نمک حلالی کے اس نظریے کے پس منظر میں اقتصادی و معاشی عوامل کارفرما تھے۔ غریب عوام اپنی معاشی ضروریات کی خاطر کسی ایک شخص یا خاندان کے وفادار ہوجاتے تھے ۔
اہل اقتدار طبقے اپنے ملازمین کی اس وقت مدد کرتا تھا ۔ جب یہ اس کے مفادات کاتحفظ کرتا تھا ۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ امراء جاگیرداروں اور اہل اقتدار کو نہ تو مذہب سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے نہ ملک و قوم سے۔ اس کی ساری دلچسپی اپنی جائیداد اور دولت میں ہوتی ہے جس کی حفاظت اور دفاع کےلئے نمک حلالی سے بہتر او رکوئی اخلاقی قدر نہیں تھی ۔ اس کے زیر اثر غریب و بے سہارا انسانوں نے اپنے دولت مند آقاؤں کی خاطر جان دے دی۔

No comments:

Post a Comment