Friday, July 10, 2015

Architecture: The Irony of History فن تعمیر:المیہ تاریخ







ڈاکٹر مبارک علی
فن تعمیر
موجودہ جمہوری زمانے میں اب ہر چیز کو ناپنے کےپیمانے بدل گئے ہیں اور ہم چیز کی قدر و قیمت ا ن بنیادوں پر پرکھتے ہیں کہ ان سےعوام کاکیا تعلق تھا؟ اور تہذیب و تمدن کی ایجادات اور فنون لطیفہ میں جو ترقی ہوئی اس سے کس حد تک عوام کو فائدہ پہنچا ؟ اس لئے جدید مورخ جب تاریخ لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کا طرز نگارش اور اسلوب درباری مورخ کا نہیں ہوتا جو صرف بادشاہ و امرا ء کی تعریف میں قصیدہ خوانی کرتا تھا ۔ بلکہ وہ تاریخ کا تجزیہ کرتےہوئے عوام کی اقتصادی و سماجی حالت ۔ اور ان کے شعور کوبھی دیکھتا ہے اور اسی روشنی میں اس کامطالعہ کرتاہے ۔
اس سلسلے میں جب ہم تاریخ میں فنون لطیفہ کی ترقی پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی ترقی میں ہم بادشاہوں اور امراء کاہاتھ دیکھتےہیں ۔ اور ہمارے ذہن میں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ ان فنون لطیفہ کا، جو دربار میں پیدا ہوئے ،اور دولت و آسائش کی فضا میں ان کی ترقی ہوئی ،ان کاعوام سےکتنا تعلق تھا ُ؟ مثلاً موسیقی ، مصوری، اور فن تعمیر جو دربار کی سرپرستی میں پروان چڑھیں یہ کس حد تک اپنے عوام کی نمائندہ رہی ہیں ؟ اور ان سےکس حد تک ایک عام آدمی نےفائدہ اٹھایا ؟ یا اس کی ذہنی تربیت میں ان فنون لطیفہ نےکیا کردار ادا کیا؟
اس مختصر مضمون میں ہم صرف فن تعمیر پر بحث کریں گے اور اس کاتعلق ہندوستان میں مسلمانوں کےعہد کی تعمیرات سےہوگا۔ یہاں ہم اس بات کاجائزہ لیں گے کہ ان تعمیرات میں کس حد تک عوامی  فلاح و بہبود کا تصور تھا ۔ اور کس حدتک صرف شخصی و ذاتی مفادات کار فرماتھے ۔
یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ فن تعمیر کے زمرے میں صرف وہ عمارتیں آتی ہیں جن کی تعمیر میں ایک خاص انداز ،طریقہ ثقافتی رنگ جھلکتا ہو۔ اس لئے فن تعمیر ہر دور میں معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور اس میں عہد کے تصورات و نظریات جھلکتے ہیں ۔
تعمیرات کو دیکھ کر اس عہد کی شان و شوکت ،ذہنی اختراع اور بالیدگی کااحساس ہوتا ہے ۔ یہ ایک پیمانہ ہے۔ جس سے کسی دور کی ثقافت کو ناپا جاسکتاہے اوراس سے معاشرے کی سیاسی ، اقتصادی ، سماجی ، و ثقافتی زندگی کے بارے میں بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔
فن تعمیر کی اس تعریف کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم ہندوستان میں مسلمانوں کے عہد میں جو تعمیرات ہوئیں ان پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات واضح ہوکر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ فن تعمیر ، جس تصور یا جس ذہن کی نمائندگی کرتاہے وہ بادشاہ کی الوہیت اور عظمت ہے اور اس کا اظہار صرف ایک طبقے کی ثقافت ہے اور یہ حکمران طبقہ حکمرانوں امراء اور جاگیرداروں کا تھا ۔ ان تمام عمارات میں جو انہوں نے تعمیر کرائیں ،ان میں ان کا محدود طبقاتی پس منظر اور ذہنیت موجود ہے۔ اور یہ اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ان تعمیرات کا مقصد ایک طرف تو ان کی ذاتی و سیاسی مفادات تھے اور دوسری طرف وہ ان کے ذریعے اپنی قوت و طاقت کا اظہارچاہتے تھے اور ان سے رعیت کے ذہن کو مرعوب کرکے اپنی عظمت قائم کرنا چاہتے تھے۔
مثلاً اس عہد میں جو عمارتیں تعمیر ہوئیں او رجنہیں فن تعمیر کےاصول پرپرکھتے ہیں، ان عمارتوں کا تعلق صرف ایک طبقے سے تھا۔ محلات ، شاہی باغات، قلعے ،مقبرے ، مسجدیں ،فتح کی یاد میں تعمیر شدہ دروازے اور مینار وغیرہ یہ عمارات جاگیر دارانہ معاشرے میں ایک طبقے کی سہولت و آسودگی ، حفاظت یا ان کی عظمت کےلئے تعمیر ہوئیں انہوں نے صرف اس قسم کے فن تعمیر کی سرپرستی کی جو بادشاہ کی شخصیت اور جاگیردار طبقے کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بٹھا ئے اور ان تعمیرات کے ذریعے سےان کے کارناموں کو دنیا کے سامنےپیش کرے۔
ان عمارات کی تعمیر کا تجزیہ اس بات کو ثابت کرتاہے کہ محلات کی تعمیر کا مقصد رہائش کہ سہولت اور آرام تھا ۔وسیع کمرے، بارہ وریووں ، شہ نشینوں اور صحنوں والے یہ مکانات ومحلات بادشاہ اور امراء کےوسیع خاندان اورحرم کےلئے زندگی کی تمام سہولتیں مہیاکرتے تھے اور مکینوں کےلئے ہر وقت پر فضا اور مسرور کن گردہ پیش فراہم کرتے تھے ۔ شاہی محلات اور امراء کی حویلیوں سےمتصل جو باغات ہوتے تھے وہ بادشاہ و امراء اور ان کے اہل خاندان کی تفریح کےلئے ہوتے تھے قلعے بیرونی و اندرونی دشمنوں سے محفوظ رہنے کے لئے تعمیر ہوتے تھے ۔ جن کی مضبوط پناہ گاہیں انہیں تمام خطروں سے محفوظ رکھتی تھیں اور جن کی بلند و بالا فصیلوں پر پہرے دار ہر وقت مسلح رہ کر ان کے جان و مال کی حفاظت کرتے تھے ۔یہ اپنی فتح کی یاد میں مینار اور دروازے تعمیر کراتے تھے تاکہ یہ بلند و بالا دروازے اور مینار رعیت میں ان کی ہیبت قائم رکھ سکیں ۔ مسجدوں کی تعمیر میں ایک طرف ان کے مذہبی جذبے کی تسکین ہوتی تھی تو دوسری طرف مسلمان عوام میں انہیں مقبولیت ملتی تھی ۔ مرنے کے بعد ان کے لئے خوبصورت اور عالیشان مقبرے بنتےتھے تاکہ ان کا نام نہ مٹنے پائے اور یہ زندہ رہیں ۔
ان عمارات کے علاوہ ایسی عمارتیں شاذو نادر ملتی ہیں جن کا مقصد طبقاتی مفاد کےعلاوہ عوامی مفاد یا بہبود ہو۔ یا جن عمارتوں سے رعیت نےفائدہ اٹھایا ہو۔ یہ صحیح ہے کہ ان بادشاہوں نے ان عمارتوں کے علاوہ دوسری عمارتیں بھی تعمیر کرائیں جن میں سرائے ، پل،یا مدارس شامل ہیں ۔ لیکن یہ عمارتیں کوئی فن تعمیر کا نمونہ نہ تھیں اورنہ ہی مضبوط و مستحکم اس لئے یہ زمانہ کےنشیب و فراز میں روپوش ہوگئیں ۔آج عہد سلاطین و عہد مغلیہ کی عمارات میں محلات ، باغات ، قلعے مسجدیں دروازے مقبرے تونظر آتے ہیں مگر کوئی یونیورسٹی مدرسہ، ہسپتال اور ٹاؤن ہال نظر نہیں آتا ۔
اگر افادیت کےنقطہ نظر سے دیکھیں تو ہم اس نیتجے پر پہنچتے ہیں کہ عمارات جو عوام کے ٹیکسوں سے تعمیر ہوئیں یہ روپے کا بے جااستعمال تھا اور ان کے ذریعے ایک طبقے نے صرف اپنی ذاتی خواہشات کو عملی جامہ پہنایا ۔ ہمیں تاج محل کی خوبصورتی اور حسن سے انکار نہیں لیکن ذہن میں یہ سوال ضرور آتا ہے کہ اس پر جو کروڑوں روپیہ صرف ہوا اس کی افادیت کیاہے؟
اس لئے ہم جمہوریت کے اس دور میں ان اقدار اور روایات کی مذمت کرتےہیں جن کی تخلیق ایک طبقے کے مفاد میں ہوئی ،اور جن میں عوام کی اکثریت کا مفاد نظر انداز کردیا گیا ۔ ان تعمیرات کا اس کے علاوہ اورکوئی مقصد نہیں تھا کہ بادشاہ امراء کاطبقہ اپنی زندگی  آرام و آسائش سے گزارناچاہتا تھا، اپنے ارد گرد ہر شئے کو حسین و خوبصورت دیکھنا چاہتا تھا اپنی یادگاروں کے ذریعے اپنا نام دنیا میں چھوڑناچاہتا تھا اور اپنے عالیشان مقبرے عوام کی زیارت کا مرجع بناناچاہتا تھا ،تاکہ معاشرے میں طبقاتی تقسیم باقی رہے اور ہمیشہ ان کی عظمت کے گن گائے جاتے رہیں اور ان بے نام و گمنام مجبور عوام کو بھول جائیں جن کی دولت و محنت سے یہ عمارات تعمیر ہوئیں ۔

No comments:

Post a Comment