Saturday, April 11, 2015

The Story of the Prophetic Mission (Part 2) قرآنی نقطہ نظر سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تاریخ: حصہ دوم ؛ مشرکین مکہ کے لیے واضح تنبیہ و تہدید

The Story of the Prophetic Mission (Part 2) قرآنی نقطہ نظر سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تاریخ: حصہ دوم ؛ مشرکین مکہ کے لیے واضح تنبیہ و تہدید







  
 نصیر احمد، نیو ایج اسلام
26 مارچ، 2015
مکی ادوار کے پہلے 13 سالوں کے دوران قرآن میں بار بار جن نبیوں کے قصوں کو دہرایا گیا ہے ان میں نوح، لوط، موسی، ہود، صالح اور شعیب علیہم السلام کی کہانیاں شامل ہیں۔ اکثر بار  بیان کی گئی ان کہانیوں میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے ان انبیاء کرام کی مخالفت کی اور ان کو اور ان کے پیروکاروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی یا جو ان کے پیغامات کے سخت مخالف ہوئے انہیں عذاب الٰہی نے مکمل طور پر تباہ اور نیست و نابود کر دیا۔ ان کافروں پر اللہ کا عذاب اس وقت نازل ہوا جب ان کے پاس انبیاء کرام کے ‘‘پیغامات’’ سے انکار کرنے کے لیے کوئی عذر نہیں بچا جبکہ انہیں واضح طور پر عذاب کی تنبیہ دی جا چکی تھی۔ مکی سورتیں 86 ہیں جن میں سے 26 سورتوں میں کسی ایک یا ایک سے زائد یا تمام نبیوں کی کہانیاں بالتفصیل مذکور ہیں اور دیگر 6 سورتوں میں مختصر حوالہ جات کے ساتھ مختلف نبیوں کی کہانیاں ملتی ہیں۔ قرآن مجید میں صرف یہی وہ کہانیاں ہیں جو کسی دوسری جگہ مذکور کسی نبی کی کہانی کی تفصیل کی شکل میں اور ایسی مزید تفصیلات کے ساتھ مذکور ہیں جو دیگر سورتوں میں نہیں مل سکتیں یا کہیں زیادہ تفصیل کے ساتھ مذکور کسی کہانی کے صرف ایک مختصر خلاصے کی شکل میں مذکور ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی سورت جو نزول وحی کے اعتبار سے تیسری صورت ہے جس میں مختصر طور پر موسی علیہ السلام کی کہانی اور فرعون اور اس کے پیروکاروں کے عذاب کا ذکر ہے۔ نزول وحی کے اعتبار سے 10ویں سور ت سورۂ فجر ہے جس میں ہود اور صالح علیہما السلام کا مختصراً ذکر ہے۔ اور دوسرے نبیوں کی کہانیوں پر مشتمل اسی ترتیب پر دوسری سورتیں؛ سور ت صٰ 38۔ الاعراف 39۔ الفرقان 42، القمر 55، طہٰ 45۔ الشعراء 47، النمل 48، القصص 49، الاسراء 50، یونس 51، ہود 52، الحجر 54، الصافات 56، الصبا 58، الغافر 60، فصلت 61، نوح 71، ابراہیم 72، االانبیاء73، المومنون 74، الحق 78، النازعات 81، العنکبوت 85۔ اور وہ دیگر سورتیں جن میں ان کہانیوں کے حوالا جات موجود ہیں حسب ذیل ہیں: فاطر 43، مریم، 44، الانعام 55،الزخرف 63، الاحقاف 66، الروم 84 ۔
اب ہم سورہ صٰ (نزول وحی کے اعتبار سے 38ویں سورت) کا جائزہ لیتے ہیں
1             ص (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، ذکر والے قرآن کی قسم،
2             بلکہ کافر لوگ (ناحق) حمیّت و تکبّر میں اور (ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) مخالفت و عداوت میں (مبتلا) ہیں،
3             ہم نے کتنی ہی امّتوں کو اُن سے پہلے ہلاک کر دیا تو وہ (عذاب کو دیکھ کر) پکارنے لگے حالانکہ اب خلاصی (اور رہائی) کا وقت نہیں رہا تھا،
4             اور انہوں نے اس بات پر تعجب کیا کہ ان کے پاس اُن ہی میں سے ایک ڈر سنانے والا آگیا ہے۔ اور کفّار کہنے لگے: یہ جادوگر ہے، بہت جھوٹا ہے،
5             کیا اس نے سب معبودوں کو ایک ہی معبود بنا رکھا ہے؟ بے شک یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے،
6             اور اُن کے سردار (ابوطالب کے گھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کر) چل کھڑے ہوئے (باقی لوگوں سے) یہ کہتے ہوئے کہ تم بھی چل پڑو، اور اپنے معبودوں (کی پرستش) پر ثابت قدم رہو، یہ ضرور ایسی بات ہے جس میں کوئی غرض (اور مراد) ہے،
7             ہم نے اس (عقیدۂ توحید) کو آخری ملّتِ (نصرانی یا مذہبِ قریش) میں بھی نہیں سنا، یہ صرف خود ساختہ جھوٹ ہے،
8             کیا ہم سب میں سے اسی پر یہ ذکر (یعنی قرآن) اتارا گیا ہے؟ بلکہ وہ میرے ذکر کی نسبت شک میں (گرفتار) ہیں، بلکہ انہوں نے ابھی میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا،
9             کیا ان کے پاس آپ کے رب کی رحمت کے خزانے ہیں جو غالب ہے بہت عطا فرمانے والا ہے؟،
10          یا اُن کے پاس آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ اِن دونوں کے درمیان ہے اس کی بادشاہت ہے؟ (اگر ہے) تو انہیں چاہئے کہ رسّیاں باندھ کر (آسمان پر) چڑھ جائیں،
11          (کفّار کے) لشکروں میں سے یہ ایک حقیر سا لشکر ہے جو اسی جگہ شکست خوردہ ہونے والا ہے،
12          اِن سے پہلے قومِ نوح نے اور عاد نے اور بڑی مضبوط حکومت والے (یا میخوں سے اذیّت دینے والے) فرعون نے (بھی) جھٹلایا تھا،
 13         اور ثمود نے اور قومِ لوط نے اور اَیکہ (بَن) کے رہنے والوں نے (یعنی قومِ شعیب نے) بھی (جھٹلایا تھا)، یہی وہ بڑے لشکر تھے،
 14         (اِن میں سے) ہر ایک گروہ نے رسولوں کو جھٹلایا تو (اُن پر) میرا عذاب واجب ہو گیا،
 15         اور یہ سب لوگ ایک نہایت سخت آواز (چنگھاڑ) کا انتظار کر رہے ہیں جس میں کچھ بھی توقّف نہ ہوگا،
 16         اور وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! روزِ حساب سے پہلے ہی ہمارا حصّہ ہمیں جلد دے دے،
 17         (اے حبیبِ مکرّم!) جو کچھ وہ کہتے ہیں آپ اس پر صبر جاری رکھیئے اور ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کا ذکر کریں جو بڑی قوت والے تھے، بے شک وہ (ہماری طرف) بہت رجوع کرنے والے تھے
دلچسپ بات یہ ہے، ان نبیوں کا ذکر سورہ حج کے علاوہ 28 مدنی سور ت میں سے کسی میں بھی نہیں ملتا ہے جس کی آیت نمبر 39 میں لڑائی کی اجازت دی گئی ہے اور آیت نمبر 40 میں اس کا جواز فراہم کیا ہے۔ اس لڑئی کی نوعیت قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح (قوم ثمود)، قوم لوط، قوم شعیب (مدین)، قوم ابراہیم اور قوم موسی پر نازل ہونے والے عذاب کو یاد دلانا تھا، جس کی بارہا تنبیہ تمام 32 مکی سورتوں میں مکہ کے لوگو ں کو دی گئی تھی جس کی جانب واضح طور پر اشارہ اس سورت میں موجود ہے۔ لہٰذا، مکی صورتوں میں مسلسل لوگوں کو تنبیہ کی گئی جبکہ، ایک مدنی سورت سورہ الحج میں ان دھمکیوں کے آغاز کے سچ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سورہ تحریم کی دیگر دو آیتوں میں اس بات کا حوالہ موجود ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی کافرہ تھی اور نوح علیہ السلام کے بیٹے بھی کافر تھے جبکہ فرعون کی بیوی ایک مومنہ تھیں۔
یسوع مسیح، اسحاق، اسماعیل، یعقوب، داؤد، سلیمان، یوسف، یونس علیہم السلام جیسے انبیاء کے قصوں کا ذکر، جن کا پیغمبرانہ مشن کافروں کی تباہی پر ختم نہیں ہوا، قرآن میں صرف ایک بار ہی ہے اور یوسف اور یونس علیہما السلام کی یہ کہانیاں صرف مدنی سورتوں میں ہیں۔ یہ ایک انتہائی دلچسپ استثناء ہے اور اہل مکہ کے ساتھ اس کی اس کی مناسبت پر گفتگو حصہ 4 میں کی جائے گی۔
لہٰذا، ان کفار مکہ کا انجام جنہوں نے سابقہ امتوں کی طرح سلوک پیش کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت مخالفت کی، سابقہ نبیوں کی کہانیوں کے توسل سے اس وقت بیان کر دیا گیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ابتدائی مرحلے میں تھا اور آپ کے پیروکاروں کی تعداد صرف تین تھی۔
مدینے کے لوگ حسب ذیل تین طرح کے تھے:
1             مشرکین عرب جنہوں نے اسلام قبول کیا اور سچے مسلمان بنے۔
2             مشرکین عرب جنہوں نے اسلام تو قبول کر لیا لیکن منافق تھے
3             اہل کتاب یا عیسائی اور یہودی۔
کفار مدینہ کا انجام قوم نوح، قوم موسی، قوم لوط، قوم ہود، قوم صالح اور قوم شعیب (علیہم السلام) کی طرح نہیں ہوا اس لیے کہ ان کے درمیان کوئی کافر نہیں تھا۔ مدینے کے لوگ قوم یسوع مسیح، قوم اسحاق، قوم یعقوب، قوم داؤد اور قوم سلیمان کی طرح تھے اور اسی لئے یہ ان نبیوں کے قصے ہیں جن کا ذکر مدنی سورتوں میں ہےاور یہ نوح، موسی لوط، ہود، صالح اور شعیب علیہم السلام کی کہانیاں نہیں ہیں۔ مکی اور مدنی سورتوں کے درمیان حقیقی فرق صرف یہی ہے۔ مدنی دور اسلام کی مخالفت کرنے والوں کے انجام کار کے طور پر مکی سورتوں میں جن باتوں تسلسل کے ساتھ ذکر ہوا تھا اور جن کی پیشن گوئی کی گئی تھی انہیں کو عملی جامہ عطا کرنے پر مشتمل ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ
(7:59) بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے کہا: اے میری قوم (کے لوگو!) تم اﷲ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، یقیناً مجھے تمہارے اوپر ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف آتا ہے،
 60          ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے کہا: (اے نوح!) بیشک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں (مبتلا) دیکھتے ہیں،
 61         انہوں نے کہا: اے میری قوم! مجھ میں کوئی گمراہی نہیں لیکن (یہ حقیقت ہے کہ) میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (مبعوث ہوا) ہوں،
62           میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور تمہیں نصیحت کر رہا ہوں اور اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے،
63           کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تم ہی میں سے ایک مرد (کی زبان) پر نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں (عذابِ الٰہی سے) ڈرائے اور تم پرہیزگار بن جاؤ اور یہ اس لئے ہے کہ تم پر رحم کیا جائے،
حضرت ہود علیہ السلام کا قصہ
(7:65)   اور ہم نے (قومِ) عاد کی طرف ان کے (قومی) بھائی ہُود (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اﷲ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، کیا تم پرہیزگار نہیں بنتے،
 66          ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو کفر (یعنی دعوتِ حق کی مخالفت و مزاحمت) کر رہے تھے کہا: (اے ہود!) بیشک ہم تمہیں حماقت (میں مبتلا) دیکھتے ہیں اور بیشک ہم تمہیں جھوٹے لوگوں میں گمان کرتے ہیں،
67           انہوں نے کہا: اے میری قوم! مجھ میں کوئی حماقت نہیں لیکن (یہ حقیقت ہے کہ) میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (مبعوث ہوا) ہوں،
68           میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور میں تمہارا امانت دار خیرخواہ ہوں،
 69          کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تم ہی میں سے ایک مرد (کی زبان) پر نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں (عذابِ الٰہی سے) ڈرائے، اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد (زمین پر) جانشین بنایا اور تمہاری خلقت میں (قد و قامت اور) قوت کو مزید بڑھا دے، سو تم اﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ،
70           وہ کہنے لگے: کیا تم ہمارے پاس (اس لئے) آئے ہو کہ ہم صرف ایک اﷲ کی عبادت کریں اور ان (سب خداؤں) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے؟ سو تم ہمارے پاس وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے ہو اگر تم سچے لوگوں میں سے ہو،
71          انہوں نے کہا: یقیناً تم پر تمہارے رب کی طرف سے عذاب اور غضب واجب ہو گیا۔ کیا تم مجھ سے ان (بتوں کے) ناموں کے بارے میں جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے (خود ہی فرضی طور پر) رکھ لئے ہیں جن کی اﷲ نے کوئی سند نہیں اتاری؟ سو تم (عذاب کا) انتظار کرو میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں،
72           پھر ہم نے ان کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے اپنی رحمت کے باعث نجات بخشی اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ایمان لانے والے نہ تھے،
حضرت صالح علیہ السلام کا قصہ
(7:73)                   اور (قومِ) ثمود کی طرف ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے، سو تم اسے (آزاد) چھوڑے رکھنا کہ اﷲ کی زمین میں چَرتی رہے اور اسے برائی (کے ارادے) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آپکڑے گا،
74           اور یاد کرو جب اس نے تمہیں (قومِ) عاد کے بعد (زمین میں) جانشین بنایا اور تمہیں زمین میں سکونت بخشی کہ تم اس کے نرم (میدانی) علاقوں میں محلات بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش کر (ان میں) گھر بناتے ہو، سو تم اﷲ کی (ان) نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھرو،
45           ان کی قوم کے ان سرداروں اور رئیسوں نے جو متکّبر و سرکش تھے ان غریب پسے ہوئے لوگوں سے کہا جو ان میں سے ایمان لے آئے تھے: کیا تمہیں یقین ہے کہ واقعی صالح (علیہ السلام) اپنے ربّ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: جو کچھ انہیں دے کر بھیجا گیا ہے بیشک ہم اس پر ایمان رکھنے والے ہیں،
76           متکبّر لوگ کہنے لگے: بیشک جس (چیز) پر تم ایمان لائے ہو ہم اس کے سخت منکر ہیں،
77           پس انہوں نے اونٹنی کو (کاٹ کر) مار ڈالا اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے: اے صالح! تم وہ (عذاب) ہمارے پاس لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے تھے اگر تم (واقعی) رسولوں میں سے ہو،
78           سو انہیں سخت زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا پس وہ (ہلاک ہو کر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے،
76           پھر (صالح علیہ السلام نے) ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا اور نصیحت (بھی) کر دی تھی لیکن تم نصیحت کرنے والوں کو پسند (ہی) نہیں کرتے
حضرت لوط علیہ السلام کا قصہ
(7:80) اور لوط(علیہ السلام) کو (بھی ہم نے اسی طرح بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم (ایسی) بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جسے تم سے پہلے اہلِ جہاں میں سے کسی نے نہیں کیا تھا،
81          بیشک تم نفسانی خواہش کے لئے عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں کے پاس آتے ہو بلکہ تم حد سے گزر جانے والے ہو،
82           اور ان کی قوم کا سوائے اس کے کوئی جواب نہ تھا کہ وہ کہنے لگے: ان کو بستی سے نکال دو بیشک یہ لوگ بڑے پاکیزگی کے طلب گار ہیں،
83           پس ہم نے ان کو (یعنی لوط علیہ السلام کو) اور ان کے اہلِ خانہ کو نجات دے دی سوائے ان کی بیوی کے، وہ عذاب میں پڑے رہنے والوں میں سے تھی،
84           اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش کر دی سو آپ دیکھئے کہ مجرموں کا انجام کیسا ہوا
حضرت شعیب علیہ السلام کا قصہ
 (7:85)  اور مدین کی طرف (ہم نے) ان کے (قومی) بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اﷲ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آچکی ہے سو تم ماپ اور تول پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور زمین میں اس (کے ماحولِ حیات) کی اصلاح کے بعد فساد بپا نہ کیا کرو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم (اس الُوہی پیغام کو) ماننے والے ہو،
86           اور تم ہر راستہ پر اس لئے نہ بیٹھا کرو کہ تم ہر اس شخص کو جو اس (دعوت) پر ایمان لے آیا ہے خوفزدہ کرو اور (اسے) اﷲ کی راہ سے روکو اور اس (دعوت) میں کجی تلاش کرو (تاکہ اسے دینِ حق سے برگشتہ اور متنفر کر سکو) اور (اﷲ کا احسان) یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تو اس نے تمہیں کثرت بخشی، اور دیکھو فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوا،
87           اور اگر تم میں سے کوئی ایک گروہ اس (دین) پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں ایمان لے آیا ہے اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لایا تو (اے ایمان والو!) صبر کرو یہاں تک کہ اﷲ ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے،
88           ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو سرکش و متکبر تھے کہا: اے شعیب! ہم تمہیں اور ان لوگوں کو جو تمہاری معیت میں ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے بہر صورت نکال دیں گے یا تمہیں ضرور ہمارے مذہب میں پلٹ آنا ہوگا۔ شعیب (علیہ السلام) نے کہا: اگرچہ ہم (تمہارے مذہب میں پلٹنے سے) بے زار ہی ہوں،
89           بیشک ہم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھیں گے اگر ہم تمہارے مذہب میں اس امر کے بعد پلٹ جائیں کہ اللہ نے ہمیں اس سے بچا لیا ہے، اور ہمارے لئے ہرگز (مناسب) نہیں کہ ہم اس (مذہب) میں پلٹ جائیں مگر یہ کہ اللہ چاہے جو ہمارا رب ہے۔ ہمارا رب اَز روئے علم ہر چیز پر محیط ہے۔ ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کرلیا ہے، اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری (مخالف) قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے،
90           اور ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو کفر (و انکار) کے مرتکب ہو رہے تھے کہا: (اے لوگو!) اگر تم نے شعیب (علیہ السلام) کی پیروی کی تو اس وقت تم یقیناً نقصان اٹھانے والے ہوجاؤ گے،
91          پس انہیں شدید زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو وہ (ہلاک ہوکر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے،
92           جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا (وہ ایسے نیست و نابود ہوئے) گویا وہ اس (بستی) میں (کبھی) بسے ہی نہ تھے۔ جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا (حقیقت میں) وہی نقصان اٹھانے والے ہوگئے،
93           تب (شعیب علیہ السلام) ان سے کنارہ کش ہوگئے اور کہنے لگے: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہیں نصیحت (بھی) کردی تھی پھر میں کافر قوم (کے تباہ ہونے) پر افسوس کیونکر کروں
حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ
(7:103)                پھر ہم نے ان کے بعد موسٰی (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے (درباری) سرداروں کے پاس بھیجا تو انہوں نے ان (دلائل اور معجزات) کے ساتھ ظلم کیا، پھر آپ دیکھئے کہ فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟،
104        اور موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: اے فرعون! بیشک میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (آیا) ہوں،
105        مجھے یہی زیب دیتا ہے کہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا (کچھ) نہ کہوں۔ بیشک میں تمہارے رب (کی جانب) سے تمہارے پاس واضح نشانی لایا ہوں، سو تُو بنی اسرائیل کو (اپنی غلامی سے آزاد کر کے) میرے ساتھ بھیج دے،
106        اس (فرعون) نے کہا: اگر تم کوئی نشانی لائے ہو تو اسے (سامنے) لاؤ اگر تم سچے ہو،
107        پس موسٰی (علیہ السلام) نے اپنا عصا (نیچے) ڈال دیا تو اسی وقت صریحاً اژدہا بن گیا،
108        اور اپنا ہاتھ (گریبان میں ڈال کر) نکالا تو وہ (بھی) اسی وقت دیکھنے والوں کے لئے (چمک دار) سفید ہوگیا،
109        قومِ فرعون کے سردار بولے: بیشک یہ (تو کوئی) بڑا ماہر جادوگر ہے،
110       (لوگو!) یہ تمہیں تمہارے ملک سے نکالنا چاہتا ہے، سو تم کیا مشورہ دیتے ہو،
111       انہوں نے کہا: (ابھی) اس کے اور اس کے بھائی (کے معاملہ) کو مؤخر کر دو اور (مختلف) شہروں میں (جادوگروں کو) جمع کرنے والے افراد بھیج دو،
112       وہ تمہارے پاس ہر ماہر جادوگر کو لے آئیں،
113       اور جادوگر فرعون کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: یقیناً ہمارے لئے کچھ اُجرت ہونی چاہیے بشرطیکہ ہم غالب آجائیں،
114       فرعون نے کہا: ہاں! اور بیشک (عام اُجرت تو کیا اس صورت میں) تم (میرے دربار کی) قربت والوں میں سے ہو جاؤ گے،
115       ان جادوگروں نے کہا: اے موسٰی! یا تو (اپنی چیز) آپ ڈال دیں یا ہم ہی (پہلے) ڈالنے والے ہوجائیں،
116       موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: تم ہی (پہلے) ڈال دو پھر جب انہوں نے (اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو زمین پر) ڈالا (تو انہوں نے) لوگوں کی آنکھوں پرجادو کردیا اور انہیں ڈرا دیا اور وہ زبردست جادو (سامنے) لے آئے،
117       اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی کہ (اب) آپ اپنا عصا (زمین پر) ڈال دیں تو وہ فوراً ان چیزوں کو نگلنے لگا جو انہوں نے فریب کاری سے وضع کر رکھی تھیں،
118       پس حق ثابت ہوگیا اور جو کچھ وہ کر رہے تھے (سب) باطل ہوگیا،
119       سو وہ (فرعونی نمائندے) اس جگہ مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوکر پلٹ گئے،
120اور (تمام) جادوگر سجدہ میں گر پڑے،
121       وہ بول اٹھے: ہم سارے جہانوں کے (حقیقی) رب پر ایمان لے آئے،
122        (جو) موسٰی اور ہارون (علیہما السلام) کا رب ہے،
123        فرعون کہنے لگا: (کیا) تم اس پر ایمان لے آئے ہو قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا؟ بیشک یہ ایک فریب ہے جو تم (سب) نے مل کر (مجھ سے) اس شہر میں کیا ہے تاکہ تم اس (ملک) سے اس کے (قبطی) باشندوں کو نکال کر لے جاؤ، سو تم عنقریب (اس کا انجام) جان لو گے،
124        میں یقیناً تمہارے ہاتھوں کو اور تمہارے پاؤں کو ایک دوسرے کی الٹی سمت سے کاٹ ڈالوں گا پھر ضرور بالضرور تم سب کو پھانسی دے دوں گا،
125        انہوں نے کہا: بیشک ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں،
126        اور تمہیں ہمارا کون سا عمل برا لگا ہے؟ صرف یہی کہ ہم اپنے رب کی (سچی) نشانیوں پر ایمان لے آئے ہیں جب وہ ہمارے پاس پہنچ گئیں۔ اے ہمارے رب! تو ہم پر صبر کے سرچشمے کھول دے اور ہم کو (ثابت قدمی سے) مسلمان رہتے ہوئے (دنیا سے) اٹھالے،
127        اور قومِ فرعون کے سرداروں نے (فرعون سے) کہا: کیا تو موسٰی اور اس کی (اِنقلاب پسند) قوم کو چھوڑ دے گا کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اور (پھر کیا) وہ تجھ کو اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں گے؟ اس نے کہا: (نہیں) اب ہم ان کے لڑکوں کو قتل کردیں گے (تاکہ ان کی مردانہ افرادی قوت ختم ہوجائے) اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے (تاکہ ان سے زیادتی کی جاسکے)، اور بیشک ہم ان پر غالب ہیں،
128        موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا: تم اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، بیشک زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور انجامِ خیر پرہیزگاروں کے لئے ہی ہے،
129        لوگ کہنے لگے: (اے موسٰی!) ہمیں تو آپ کے ہمارے پاس آنے سے پہلے بھی اذیتیں پہنچائی گئیں اور آپ کے ہمارے پاس آنے کے بعد بھی (گویا ہم دونوں طرح مارے گئے، ہماری مصیبت کب دور ہو گی؟) موسٰی (علیہ السلام) نے (اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے) فرمایا: قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور (اس کے بعد) زمین (کی سلطنت) میں تمہیں جانشین بنا دے پھر وہ دیکھے کہ تم (اقتدار میں آکر) کیسے عمل کرتے ہو،
130        پھر ہم نے اہلِ فرعون کو (قحط کے) چند سالوں اور میووں کے نقصان سے (عذاب کی) گرفت میں لے لیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں،
131       پھر جب انہیں آسائش پہنچتی تو کہتے: یہ ہماری اپنی وجہ سے ہے۔ اور اگر انہیں سختی پہنچتی، وہ موسٰی (علیہ السلام) اور ان کے (ایمان والے) ساتھیوں کی نسبت بدشگونی کرتے، خبردار! ان کا شگون (یعنی شامتِ اَعمال) تو اللہ ہی کے پاس ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے،
132        اور وہ (اہلِ فرعون متکبرانہ طور پر) کہنے لگے: (اے موسٰی!) تم ہمارے پاس جو بھی نشانی لاؤ کہ تم اس کے ذریعے ہم پر جادو کر سکو، تب بھی ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں،
133        پھر ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیاں، گھن، مینڈک اور خون (کتنی ہی) جداگانہ نشانیاں (بطورِ عذاب) بھیجیں، پھر (بھی) انہوں نے تکبر و سرکشی اختیار کئے رکھی اور وہ (نہایت) مجرم قوم تھے،
134        اور جب ان پر (کوئی) عذاب واقع ہوتا تو کہتے: اے موسٰی! آپ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کریں اس عہد کے وسیلہ سے جو (اس کا) آپ کے پاس ہے، اگر آپ ہم سے اس عذاب کو ٹال دیں تو ہم ضرور آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو (بھی آزاد کر کے) آپ کے ساتھ بھیج دیں گے،
135        پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے جس کو وہ پہنچنے والے ہوتے وہ عذاب ٹال دیتے تو وہ فوراً ہی عہد توڑ دیتے،
156        پھر ہم نے ان سے (بالآخر تمام نافرمانیوں اور بدعہدیوں کا) بدلہ لے لیا اور ہم نے انہیں دریا میں غرق کردیا، اس لئے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کی (پے در پے) تکذیب کی تھی اور وہ ان سے (بالکل) غافل تھے،
137        اور ہم نے اس قوم (بنی اسرائیل) کو جو کمزور اور استحصال زدہ تھی اس سرزمین کے مشرق و مغرب (مصر اور شام) کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی تھی، اور (یوں) بنی اسرائیل کے حق میں آپ کے رب کا نیک وعدہ پورا ہوگیا اس وجہ سے کہ انہوں نے (فرعونی مظالم پر) صبر کیا تھا، اور ہم نے ان (عالیشان محلات) کو تباہ و برباد کردیا جو فرعون اور اس کی قوم نے بنا رکھے تھے اور ان چنائیوں (اور باغات) کو بھی جنہیں وہ بلندیوں پر چڑھاتے تھے۔
تمام اقوام کے لیے مشترکہ آیات
 (7:94)  اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر ہم نے اس کے باشندوں کو (نبی کی تکذیب و مزاحمت کے باعث) سختی و تنگی اور تکلیف و مصیبت میں گرفتار کرلیا تاکہ وہ آہ و زاری کریں،
95           پھر ہم نے (ان کی) بدحالی کی جگہ خوش حالی بدل دی، یہاں تک کہ وہ (ہر لحاظ سے) بہت بڑھ گئے۔ اور (نا شکری سے) کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادا کو بھی (اسی طرح) رنج اور راحت پہنچتی رہی ہے سو ہم نے انہیں اس کفرانِ نعمت پر اچانک پکڑ لیا اور انہیں (اس کی) خبر بھی نہ تھی،
96           اور اگر (ان) بستیوں کے باشندے ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے (حق کو) جھٹلایا، سو ہم نے انہیں ان اَعمالِ (بد) کے باعث جو وہ انجام دیتے تھے (عذاب کی) گرفت میں لے لیا،
97           کیا اب بستیوں کے باشندے اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب (پھر) رات کو آپہنچے اس حال میں کہ وہ (غفلت کی نیند) سوئے ہوئے ہیں،
98           یا بستیوں کے باشندے ا س بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب (پھر) دن چڑھے آجائے اس حال میں کہ (وہ دنیا میں مدہوش ہوکر) کھیل رہے ہوں؟،
99           کیا وہ لو گ اللہ کی مخفی تدبیر سے بے خوف ہیں؟ پس اللہ کی مخفی تدبیر سے کوئی بے خوف نہیں ہوا کرتا سوائے نقصان اٹھانے والی قوم کے،
100        کیا (یہ بات بھی) ان لوگوں کو (شعور و) ہدایت نہیں دیتی جو (ایک زمانے میں) زمین پر رہنے والوں (کی ہلاکت) کے بعد (خود) زمین کے وارث بن رہے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے باعث انہیں (بھی) سزا دیں، اور ہم ان کے دلوں پر (ان کی بداَعمالیوں کی وجہ سے) مُہر لگا دیں گے سو وہ (حق کو) سن (سمجھ) بھی نہیں سکیں گے،
101       یہ وہ بستیاں ہیں جن کی خبریں ہم آپ کو سنا رہے ہیں، اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ (پھر بھی) اس قابل نہ ہوئے کہ اس پر ایمان لے آتے جسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے، اس طرح اللہ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے،
102        اور ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں میں عہد (کا نباہ) نہ پایا اور ان میں سے اکثر لوگوں کو ہم نے نافرمان ہی پایا،۔
امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے واضح تنبیہ
(181)                   اور جنہیں ہم نے پیدا فرمایا ہے ان میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق بات کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل پر مبنی فیصلے کرتے ہیں،
82           اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے ہم عنقریب انہیں آہستہ آہستہ ہلاکت کی طرف لے جائیں گے ایسے طریقے سے کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوگی،
83           اور میں انہیں مہلت دے رہا ہوں، بیشک میری گرفت بڑی مضبوط ہے،
84           کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ انہیں (اپنی) صحبت کے شرف سے نوازنے والے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنون سے کوئی علاقہ نہیں، وہ تو (نافرمانوں کو) صرف واضح ڈر سنانے والے ہیں،
85           کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت میں اور (علاوہ ان کے) جو کوئی چیز بھی اللہ نے پیدا فرمائی ہے (اس میں) نگاہ نہیں ڈالی؟ اور اس میں کہ کیا عجب ہے ان کی مدتِ (موت) قریب آچکی ہو، پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے،
86           جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لئے (کوئی) راہ دکھانے والا نہیں، اور وہ انہیں ان کی سرکشی میں چھوڑے رکھتا ہے تاکہ (مزید) بھٹکتے رہیں،
87           یہ (کفار) آپ سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ فرما دیں کہ اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے، اسے اپنے (مقررہ) وقت پر اس (اللہ) کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین (کے رہنے والوں) پر (شدائد و مصائب کے خوف کے باعث) بوجھل (لگ رہی) ہے۔ وہ تم پر اچانک (حادثاتی طور پر) آجائے گی، یہ لوگ آپ سے (اس طرح) سوال کرتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، فرما دیں کہ اس کا علم تو محض اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے۔"
مکی سورت سورہ فرقان میں تنبیہ و تہدید
(25:35) اور اس دن آسمان پھٹ کر بادل (کی طرح دھوئیں) میں بدل جائے گا اور فرشتے گروہ در گروہ اتارے جائیں گے،
26           اس دن سچی حکمرانی صرف (خدائے) رحمان کی ہوگی اور وہ دن کافروں پر سخت (مشکل) ہوگا،
27           اور اس دن ہر ظالم (غصہ اور حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کھائے گا (اور) کہے گا: کاش! میں نے رسولِ (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیّت میں (آکر ہدایت کا) راستہ اختیار کر لیا ہوتا،
28           ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا،
29           بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا، اور شیطان انسان کو (مصیبت کے وقت) بے یار و مددگار چھوڑ دینے والا ہے،
30           اور رسولِ (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا،
31          اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے جرائم شعار لوگوں میں سے (ان کے) دشمن بنائے تھے (جو ان کے پیغمبرانہ مشن کی مخالفت کرتے اور اس طرح حق اور باطل قوتوں کے درمیان تضاد پیدا ہوتا جس سے انقلاب کے لئے سازگار فضا تیار ہو جاتی تھی)، اور آپ کا رب ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لئے کافی ہے،
32           اور کافر کہتے ہیں کہ اس (رسول) پر قرآن ایک ہی بار (یک جا کرکے) کیوں نہیں اتارا گیا؟ یوں (تھوڑا تھوڑا کر کے اسے) تدریجاً اس لئے اتارا گیا ہے تاکہ ہم اس سے آپ کے قلبِ (اطہر) کو قوت بخشیں اور (اسی وجہ سے) ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا ہے (تاکہ آپ کو ہمارے پیغام کے ذریعے بار بار سکونِ قلب ملتا رہے)،
33           اور یہ (کفار) آپ کے پاس کوئی (ایسی) مثال (سوال اور اعتراض کے طور پر) نہیں لاتے مگر ہم آپ کے پاس (اس کے جواب میں) حق اور (اس سے) بہتر وضاحت کا بیان لے آتے ہیں،
34           (یہ) ایسے لوگ ہیں جو اپنے چہروں کے بل دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے یہی لوگ ہیں جو ٹھکانے کے لحاظ سے نہایت برے اور راستے سے (بھی) بہت بہکے ہوئے ہیں،
35           اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب عطا فرمائی اور ہم نے ان کے ساتھ (ان کی معاونت کے لئے) ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو وزیر بنایا،
36           پھر ہم نے کہا: تم دونوں اس قوم کے پاس جاؤ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے (جب وہ ہماری تکذیب سے پھر بھی باز نہ آئے) تو ہم نے انہیں بالکل ہی ہلاک کر ڈالا،
37           اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کو (بھی)، جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا (تو) ہم نے انہیں غرق کر ڈالا اور ہم نے انہیں (دوسرے) لوگوں کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا اور ہم نے ظالموں کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے،
38           اور عاد اور ثمود اور باشندگانِ رس کو، اور ان کے درمیان بہت سی(اور) امتوں کو (بھی ہلاک کر ڈالا)،
39           اور ہم نے (ان میں سے) ہر ایک (کی نصیحت) کے لئے مثالیں بیان کیں اور (جب وہ سرکشی سے باز نہ آئے تو) ہم نے ان سب کو نیست و نابود کر دیا،
40           اور بیشک یہ (کفار) اس بستی پر سے گزرے ہیں جس پر بری طرح (پتھروں کی) بارش برسائی گئی تھی، تو کیا یہ اس (تباہ شدہ بستی) کو دیکھتے نہ تھے بلکہ یہ تو (مرنے کے بعد) اٹھائے جانے کی امید ہی نہیں رکھتے،
41          اور (اے حبیبِ مکرّم!) جب (بھی) وہ آپ کو دیکھتے ہیں آپ کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں کرتے (اور کہتے ہیں:) کیا یہی وہ (شخص) ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے،
42           قریب تھا کہ یہ ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دیتا اگر ہم ان (کی پرستش) پر ثابت قدم نہ رہتے اور وہ عنقریب جان لیں گے جس وقت عذاب دیکھیں گے کہ کون زیادہ گمراہ تھا،
43           کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟ تو کیا آپ اس پر نگہبان بنیں گے
اسی طرح کی تنبیہ و تہدید دیگر سورتوں میں بھی وارد ہوئی ہے، مثال کے طور پر ایک مکی سور ت سورہ القصص کے آخری حصے میں حسب ذیل تنبیہات ہیں، جو کہ باعتبار نزول 49ویں سورت ہے:
(28:55)                اورجب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، تم پر سلامتی ہو ہم جاہلوں (کے فکر و عمل) کو (اپنانا) نہیں چاہتے (گویا ان کی برائی کے عوض ہم اپنی اچھائی کیوں چھوڑیں)،
56           حقیقت یہ ہے کہ جسے آپ (راہِ ہدایت پر لانا) چاہتے ہیں اسے راہِ ہدایت پر آپ خود نہیں لاتے بلکہ جسے اللہ چاہتا ہے (آپ کے ذریعے) راہِ ہدایت پر چلا دیتا ہے، اور وہ راہِ ہدایت پانے والوں سے خوب واقف ہے۔،
57           اور (قدر ناشناس) کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی معیّت میں ہدایت کی پیروی کر لیں تو ہم اپنے ملک سے اچک لئے جائیں گے۔ کیا ہم نے انہیں (اس) امن والے حرم (شہرِ مکہ جو آپ ہی کا وطن ہے) میں نہیں بسایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر (دنیا کی ہر سمت سے) ہر جنس کے پھل پہنچائے جاتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے (کہ یہ سب کچھ کس کے صدقے سے ہو رہا ہے)،
58           اور ہم نے کتنی ہی (ایسی) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں، تو یہ ان کے (تباہ شدہ) مکانات ہیں جو ان کے بعد کبھی آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم، اور (آخر کار) ہم ہی وارث و مالک ہیں،
59           اور آپ کا رب بستیوں کو تباہ کرنے والا نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اس کے بڑے مرکزی شہر میں پیغمبر بھیج دے جو ان پر ہماری آیتیں تلاوت کرے، اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں مگر اس حال میں کہ وہاں کے مکین ظالم ہوں
مکی سورت سورہ یونس کا اختتام مندرجہ ذیل آیات پر ہوتا ہےجو کہ باعتبار نزول 51ویں سورت ہے:
(11: 120)           اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے سب حالات آپ کو سنا رہے ہیں جس سے ہم آپ کے قلبِ (اَطہر) کو تقویت دیتے ہیں، اور آپ کے پاس اس (سورت) میں حق اور نصیحت آئی ہے اور اہلِ ایمان کے لئے عبرت (و یاددہانی بھی)،
121       اور آپ ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے فرما دیں: تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو (اور) ہم (اپنے مقام پر) عمل پیرا ہیں،
122        اور تم (بھی) انتظار کرو ہم (بھی) منتظر ہیں،
123        اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب اﷲ ہی کے لئے ہے اور اسی کی طرف ہر ایک کام لوٹایا جاتا ہے سو اس کی عبادت کرتے رہیں اور اسی پر توکل کئے رکھیں، اور تمہارا رب تم سب لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔
نصیر احمد نے آئی آئی ٹی کانپور سے انجینئرنگ میں گریجویشن کیا ہے، اور 3 دہائیوں سے زیادہ تک سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں ذمہ دار عہدوں پر خدمات انجام دینے کے بعد ایک آزاد آئی ٹی مشیر ہیں۔ وہ اکثر NewAgeIslam.com کے لئے کالم لکھتے ہیں۔ موصوف نے پہلے اس مضمون کے لیے آبزرور"Observer" کا تخلص اختیار کیاتھا۔

No comments:

Post a Comment