Saturday, April 4, 2015

Punishment for Having Beard in China and Ummah's Depression چین میں داڑھی پر سزا او رملت کی پژمردگی

Punishment for Having Beard in China and Ummah's Depression چین میں داڑھی پر سزا او رملت کی پژمردگی




ڈاکٹر سید ظفر محمود
2 اپریل، 2015
چین کے مسلم اکثریت والے صوبہ سنکیانگ (Xinjiang) کے شہر کا شغر میں ایک مسلمان کو داڑھی رکھنے پر 6 سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے اور ان کی اہلیہ کو برقع پہنے پر دو سال کی سزا ہوئی ہے ۔ یہ خبر 3 روز قبل آئی ۔ اب سے 6 ہفتہ قبل بھی خبر آئی تھی کہ وہاں اماموں کو سڑک پر رقص کرنے پر مجبور کیا گیا تھا ۔ یہ کہتے ہوئے کہ وہ بچوں کو مذہبی تعلیم نہیں  دیں گے بلکہ ان کو سکھائیں گے  کہ عبادت کرنا روح کے لیے نقصان دہ ہے۔ اُس وقت یہ بھی خبر آئی تھی کہ سرکاری ملازمین  سے بہ آواز بلند اعلان کرایا جاتا ہے کہ ہماری تنخواہ اللہ نہیں دیتا ہے بلکہ حکومت دیتی ہے۔ پہلی والی خبر پڑھ کر میں 15 فروری، 2015 کو دہلی میں چین کے سفارت خانہ کو ای میل کے ذریعہ ایک خط لکھ کر آنے والی خبر  کے انٹرنیٹ کے لنکس مہیا کیے اور ان سے درخواست  کی کہ اس خبر کی راست گوئی (Veracity) کی تصدیق کریں کہ یہ صحیح بھی ہے کہ نہیں ۔ اب تک اس خط کا کوئی جواب نہیں آیا ۔ لہٰذا اب دوسری خبر پڑھ کر میں نے دہلی میں چینی  سفارت خانہ کو ایک اور خط ای میل کے ذریعہ بھیج دیا ہے جس میں انہیں یاد دلایا ہے کہ میرے 15 فروری کے خط کاجواب ابھی موصول نہیں ہوا ہے تو ان حالات کے ازالہ کے لیے چین کی حکومت کیا اقدام کررہی ہے، اس سےبھی ہمیں  آگاہ کریں ۔ اس دفع میں نے اسی ایشو کا علیحدہ خط پی ایم او کی ویب سائٹ پر جاکر وہاں  مہیا کردہ آن لائن سہولت کے ذریعہ وزیر اعظم کو بھی بھیج دیا او رپی ایم او سےای میل کے ذریعہ رسید بھی آگئی کہ خط مل گیا ہے۔
اُدھر چینی سفارت خانہ کے نام اپنے ای میل کو میں نے چینی  حکومت کو ‘ ہندوستان کی وزیر خارجہ’ وزارت خانہ میں وزیر مملکت اور خارجہ سکریٹری کو بھی اس طرح بھیج دیا کہ ان سب اشخاص کو معلوم رہے کہ یہ خط کس کس کو گیا ہے ۔ ساتھ ہی اس ای میل کو میں نے ہندوستانی مسلمانوں کی متعدد ملک گیر تنظیموں میں سے جن کا ای میل مل سکا، ان سب کو بھی بھیج دیا جن میں جماعت اسلامی ہند’ جمعیۃ علماء  کے دونوں گروپوں’ کل ہند مسلم مجلس مشاورت  وغیرہ اور اردو انگریزی میڈیا کے مدیروں و نمائندوں کو بھی ارسال کردیا ۔  یہی ای میل میں نے دہلی میں مقیم مختلف مسلم ممالک کے سفارت خانوں کو بھی بھیج دیا ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ سب خواتین و حضرات اور قارئین کرام بھی اسی ایشو کے ای میل اور خطوط  چینی سفارت  خانہ، چینی حکومت اور حکومت ہند کو ارسال کریں ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ پوری ملت کو چاہیے کہ وہ مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہے ( 3:103)  اور یہ کہ ان کے ذمہ کوشش کرنا  ہے اور اس کوشش میں اثر ڈالنا مالک حقیقی  کا کام ہے ۔ ورنہ ہمیں  یہ بھی معلوم ہے کہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتی  جو خود اس تبدیلی کے لئے تگ و دو نہیں کرتی ۔ تشویش کا ایشو یہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا میں خبر نہیں آئی کہ مسلم ممالک  نے ان حالات پر احتجاج کرتے ہوئے کچھ کارروائی کی ہو ۔ چین کے تودنیابھر میں کاروباری رشتے ہیں جن سے عموماً  چین کو ہی زیادہ مالی فائدہ ہوتاہے ۔ مثلاً  ترکی میں ریل لائن بناکر بچھانے کاٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو ملا ہوا ہے ۔ سننے میں آیا ہے کہ حال میں ترکی میں مظاہرہ ہوا تھا، وہاں کی حکومت پر زور دینے کےلئے  کہ چین میں مسلمانوں کی فلاح  کی خاطر ترکی کےذریعہ ضروری اقدام کیے جائیں ۔
چین میں شروعات  میں اسلام کی آمد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے وہاں تین سفارتی اسفار (637،616،651) کے دوران ہوئی، اس میں سے آخری سفر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت  راشدہ کےدوران عمل  میں آیا ۔  اس کے بعد کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا کہ ڈونلڈ ڈینیل لیسلی  نے اپنی کتاب ‘ چین میں مذہبی اقلیتوں کا انضمام’  میں لکھا ہے کہ چینگیز خان اور اس کے بعد کے بادشاہوں کے زمانہ  میں حلال ذبیحہ منع تھا  اور یہودیوں کے لیے کوشر منع تھا ۔ اس کے منگ نام کےشاہی گھرانے کے دور حکومت ( 1644۔1368) میں مسلمانوں کو اہمیت ملنے لگی’ فوج کے اہم جنرل مسلمان ہوتے تھے ۔ ان میں سے ایک ( لان یو) نے 1388 میں سپہ سالار کی حیثیت  سے منگولوں پر فتح حاصل کی اور اس طرح چین پر دوبارہ قبضہ کرنے کامنگول خواب چکنا چور ہوگیا ۔ اس سے خوش ہوکر اس وقت کے چینی بادشاہ ہونگوو نےاسلام اور پیغمبر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں 100 الفاظ کاقصیدہ ( The Hundred-Word Eulogy) لکھا جس کی نقلیں اب بھی چین کی مساجد میں دیواروں پر احترام سے ٹنگی ہوئی مل جاتی ہیں ۔ شاہی خزانے سے  مساجد تعمیر کروائی گئیں ۔ بیجنگ میں مسلم عبادت اور رسم و رواج پر سے پابندی ہٹالی گئی تھی ۔ اس کے بعد 1644 میں جب قِنگ شاہی گھرا نے نے منگ گھرانے پر حملہ کردیا تو مسلمانوں نے قنگ کے خلاف بغاوت کردی، لیکن  مسلمانوں کو زبردست شکست کا  سامنا کرنا پڑا ۔ تقریباً 1,00,000  مسلمان مارے گئے ۔ حالانکہ بیجنگ کی مسلم آبادی پر اس کا اثر نہیں پڑا لیکن  شمالی چین اور خصوصاً صوبہ سنکیانگ میں  حالات مسلمانوں کے خلاف بگڑنے لگے ۔
وہاں کے کچھ  مسلمان جیسے  مازہانو’ ماالیانگ ’ ڈونگ فکسیانگ  ’ ما قیانلنگ اور ما جُلنگ وغیرہ نے مسلمانوں کے ساتھ غداری کردی ۔ وہ قنگ شاہی گھرانے کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے انفرادی  ذاتی مفاد کے لیے مسلمانوں کو پامال کرنے اور ان کاقتل عام کرنے میں  حکومت وقت کی مدد کی ۔ اسی طرح کی ایک اور بغاوت 1895 میں ہوئی جسے ڈنگن  بغاوت ( Dungan Revolt) کہتے ہیں جس سےمسلمان مزید مصیبت  میں پڑ گئے ۔ پھر 1912 میں سن یات سین (Sun Yat Sen )  نے جمہوری  سلطنت ( Repbulic of China) قائم کی ۔ اس نے دیگر قوموں کے ساتھ مسلمانوں کی  بھی ملک میں برابری  کی حصہ داری کا اعلان کردیا ۔ اس نے مسلم قائدین جنگ کو چار صوبوں کا گورنر بنایا اور ایک کو قومی وزیر دفاع تعینات کیا ۔  لیکن اس کے بعد دوسری چین جاپان لڑائی ( 1937-1945)  کےدوران مسلمانوں نے چین کی طرف سے لڑنے کا فیصلہ کیا ، اس لیے جاپانیوں  نے چین کےمسلمانوں کی بہت زیادہ تباہ کاری کی ۔ پھر ثقافتی انقلاب (1966-1976 Cultural Revolution ) کے دوران مساجد کونقصان پہنچایا گیا ، قرآن کریم  کی بے حرمتی  کی گئی  اور قبرستان بند کردیئے گئے ۔ مسلمانو ں کے رسم  و رواج کو حکومت نے تو ہم پرستی قرار دیا ۔ پھر  اس کے 12۔10 برس بعد مسلمانوں کے تئیں  حکومت نے اپنی پالیسی   میں نرمی لانا شروع کی ۔ تب  سے اب تک چینی مسلمانوں میں عموماً  تجدید حلیم دیکھی جاسکتی ہے۔ اسلامی تنظیمیں  قائم ہونے لگی ہیں ۔ اس پس منظر میں اچانک 2015 میں مسلمانوں کے ساتھ پھر بد سلوکی کا سبب زیادہ سمجھ میں نہیں آتا بجز  اس کے کہ پوری دنیا  میں مسلمان تختہ  مشق بنے ہوئے ہیں،  ان کو چھیڑنا اور پریشان کرنا فیشن بن گیا ہے تو شاید ٹسٹ  کے طور پر چین میں بھی  چھیڑ خانی کی جارہی ہو ۔ اب اگر دنیا کے مسلمان اس پر احتجاج نہیں کریں گے تو سلسلہ طول پکڑ سکتا ہے اور حوصلے بلند ہوسکتے ہیں ۔
فی الحال چین میں مسلمان بڑی تعداد میں 4 صوبوں میں رہتے ہیں : زنجیانگ ، ننگشیا، گانسو اور شنگھائی ۔ ان کی کل تعداد 2.5 کروڑ ہونی چاہئے ۔ ان کی  36,000 عبادت گاہیں ہیں ۔ اس سے زیادہ تعداد ائمہ  کی ہے ۔ مدرسے و اسلامیہ  کالج  ہیں ۔ 10,000 سے زیادہ لوگ ہر سال حج کے لیے جاتے ہیں ۔ سرٹامس  واکر آرنلڈ نے اپنی کتاب  ‘‘تدریس اسلام ’’ میں لکھا ہے کہ 17 ویں صدی  میں چین میں کافی یہودیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ آج وہاں ہلال گوشت کھلے عام ملتا ہے ۔ عید، بقرعید کے چھٹی ہوتی ہے۔ پھر بھی سرکاری  دفتروں اور تعلیمی  اداروں میں نماز پڑھنے پر پابندی ہے ۔ آئے دن مسلم نوجوانوں کی دھر پکڑ ہوتی ہے ۔ اس ایذا  رسانی سے تنگ آکر بہت سے نوجوان بیرون ملک ملیشیا،  انڈونیشیا، ترکی وغیرہ چلے جاتےہیں ۔ اپنے ملک سے محبت و مکمل  وفاداری کرنا تو ہر مسلمان کادینی فریضہ ہے۔ لیکن  حقوق انسانی کے سبب شہریوں کے لیے یکساں حصول کو یقینی   بنانا ہر ملک کابھی فریضہ ہے ۔  اس  میں کہیں  کوئی لا پرواہی یا کوتاہی  ہوتی ہے تو اس کے خلاف آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے آواز اٹھانا بھی بہت  ضروری ہے۔ یاد رکھئے کہ 17 ویں صدی میں چین کے مسلمانوں نے ذاتی خود غرضی کی خاطر ملی مفاد کو نظر انداز نہیں کیا ہوتا تو آج وہاں  کے مسلمانوں پر بھی  ظلم و زیادتی  کرنا فیشن نہ بنا ہوتا ۔ علامہ اقبال  کی تنبیہ پر دھیان دیں :
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو ، زباں تو ہے
یقیں پیدا کرائے غافل ، کہ مغلوبِ گُماں تو ہے
2 اپریل، 2015  بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی

No comments:

Post a Comment