Saturday, April 4, 2015

Islam Views Murder as a Crime and a Major Sin قتل اسلام میں ایک جرم اور بہت بڑا گناہ ہے  

Islam Views Murder as a Crime and a Major Sin قتل اسلام میں ایک جرم اور بہت بڑا گناہ ہے






 شوقی علام
24فروری 2015
جب دو ماہ قبل پیرس میں چارلی ہیبڈوپر انتہائی بزدلانہ اور وحشت ناک حملہ ہوا تو اس واقعے سے ہر مسلمان کو زبردست صدمہ پہنچا۔ یہ ہولناک حملہ اسلامی قانون اور اسلامی اقدار کی مکمل خلاف ورزی ہے، اور اس کے مجرمین کسی بھی طرح مسلمانوں کی یا دین اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے۔
خدا نے انسانی زندگی کی حرمت کو ایک عالمگیر اصول کی صورت میں برقرار رکھا ہے۔ قرآن کا فرمان ہے " اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقینا اللہ تم پر نہایت مہربان ہے" (4:29)۔ اسلام نے قتل کو اس دنیا میں قانوناً جرم اور ایک گناہ عظیم قرار دیا ہے جس کے لیے آخرت میں سزا مقرر کی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : "قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونریزی کے مقدمات کا فیصلہ کیا جائے گا۔"
اس کی سب سے بہترین شکل ہمیں اسلامی روایات میں نظر آتی ہے جن میں دہشت گردی اور تشدد کی سختی کے ساتھ ممانعت وارد ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بہترین مثال خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں موجود ہے کہ گزشتہ ماہ 1.6 ارب مسلمانوں نے جن کی جشن ولادت کا اہتمام کیا تھا۔
مسلمانوں کے لئے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ مینارہ رحمت و نور ، ہمدردی کا بے نظیر مجسمہ ، حکمت کا موسم بہاراں اور خدا کی جانب اپنے سفر میں کامل رہنمائی کا مصدر و سر چشمہ ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ سخت گیر مذہبی انتہا پسندوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائرۂ اسوۂ حسنہ کو چند روایتی معمولات، پرفریب منصوبوں اور مفلوج منطق میں ہی سمیٹ کر رکھ دیا ہے جو کہ اسلام کی حقیقی معنویت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے خلاف ہے۔
دہشت انگیزی
انہوں نے دائرۂ اسلام کو محض لوگوں کو قتل کرنے، اسکولوں کو نذر آتش کرنے، عورتوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے، مذہبی اقلیتوں کو موت کے گھاٹ اتارنے اور انتہائی وحشت ناک انداز میں لوگوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے تک ہی محدود کر دیا ہے۔
انہوں نے متفق علیہ اور دستاویزی شکل میں اچھی طرح محفوظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو نظر انداز کر دیاہے۔ وہ اس بات کو سمجھنے میں ناکام ہو چکے ہیں کہ ایمان کا حتمی مقصد خدا کے ساتھ تعلق بندگی استوار کرنا ہے اور اس وقت تک اس کا حصول نا ممکن ہے جب تک ہم رحمت و محبت، ہمدردی اور رحم دلی جیسی مشترکہ صفات الٰہیہ اپنے اندر پیدا نہیں کر لیتے اور اسی کے مطابق دوسرے انسانوں کے ساتھ پیش نہیں آتے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیشہ آپ کے دشمن محض اس لیے انتہائی برا سلوک کرتے تھے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنی توہین و تذلیل کو نظرانداز کرتے تھے اور مغفرت، رحمت اور شفقت کا راستہ اختیار کرتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان انہیں "تمام جہانوں کے لئے رحمت" مانتے ہیں۔ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مثال کو قرآن کی مندرجہ ذیل ہدایت میں مکمل طور پر جامع اور مانع انداز میں پیش کیا گیا ہے: "نیکی اور برائی یکساں نہیں ہیں۔ برائی کا بدلہ نیکی سے دو۔"
آج اس دنیا کو قرآن پاک اور پیغمبر اسلام کی مستند تعلیمات کی نمائندگی کرنے والی ان تعلیمات کی اشد ضرورت ہے۔ ان عظیم پیغامات کو ان تعلیمات سے علیحدہ رکھنا ضروری ہے جن کی اشاعت ان لوگوں نے کی ہے جنہیں مذہبی تشریح، قرآنی تفسیر یا اسلامی فکر و نظر کی تاریخ میں کوئی مہارت حاصل نہیں ہے۔
اشتعال انگیز بیانات
بدقسمتی سے مسلم ممالک کی موجودہ حالت ایسی ہو چکی ہے کہ قانونی اتھارٹی کو اس حد تک چیلنجز کا سامنا ہے کہ مذہبی جذبات کی رہنما اور مذہبی کارروائی کی تحریک کی شکل میں غور و فکر میں ڈوبے ہوئے تجزیہ کی جگہ اشتعال انگیز بیانات نے لے لی ہے۔
مجھے واضح انداز میں یہ کہنے دیا جائے کہ اسلام انتہا پسندی اور دہشت گردی کے سخت خلاف ہے لیکن جب تک ہم ان عوامل کو نہیں سمجھتے جن سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے محرکات کا علم ہوتا ہے تب تک ہم اس لعنت کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس دنیا کو تباہ کرنے والی اس سنگین صورتحال کا خاتمہ کرنے والے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے ہمیں یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
تاہم، فوری طور پر واقعے کی پہلی اخباری اطلاعات کے چند لمحوں کے بعد ہی اتنی سرعت کے ساتھ مذہب اسلام کے خلاف اس رد عمل کو دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی۔ کیونکہ چند برے لوگوں کے اعمال مذمومہ کا مورد الزام مکمل طور پر دین کو ٹھہرانا ایک بہت بڑی نا انصافی ہے اور جس کا کوئی فائدہ نہیں۔
اتنے دکھ اور تکلیف کے عالم میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس ہولناک واقعے کے خلاف متحد ہو کر منصفانہ طریقے سے مناسب انداز میں اس کے خلاف قدم اٹھائیں۔ ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم بلاوجہ کسی مسلمان کو بدنام نہ کریں، اس لیے نہیں کہ اس میں مسلمانوں کے لیے بھلائی ہےبلکہ اس لیے کہ مستقبل میں پر امن بقائے باہمی کی ہماری صلاحیت اسی پر منحصر ہے۔
ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کے لئے کہ جس میں ہم تمام لوگ پر امن بقائے باہمی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں ہمیں ایسے مخلص مذہبی رہنماؤں کی اشد ضرورت ہے جو دور جدید کے حقائق کا ادراک کر سکیں اور اس میں در پیش چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کر سکیں۔ یہ کوشش تمام مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کی ایک مشترکہ جد و جہد پر مبنی ہونی چاہے۔
شوکی علام مصر کے مفتی اعظم ہیں
ماخذ:
http://www.irishtimes.com/opinion/islam-views-murder-as-a-crime-and-a-major-sin-1.2150221

No comments:

Post a Comment