Thursday, March 5, 2015

Khilafat is Not a Religious Term خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے








جاوید احمد غامدی
5 فروری، 2015
اِس میں شبہ نہیں کہ خلافت کا لفظ اب کئی صدیوں سے اصطلاح کےطو رپر استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ ہر گز کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے ۔ دینی اصطلاحات رازی ، غزالی، ماوردی، ابن حزم اور ابن خلدون کے بنانے سے نہیں بنتیں اور نہ ہر وہ لفظ جسے مسلمان کسی خاص مفہوم میں استعمال کرناشروع کردیں، دینی اصطلاح بن جاتا ہے۔ یہ اللہ اور اُس کے رسولوں کےبنانے سے بنتی ہیں او راسی وقت قابل تسلیم ہوتی ہیں، جب ان کا اصطلاح مفہوم قرآن و حدیث  کےنصوص یا دوسرے الہامی صحائف سےثابت کردیا جائے ۔ صوم، صلوٰۃ اور حج و عمرہ وغیرہ اسی لئے دینی اصطلاحات ہیں کہ انہیں اللہ اور اُس کے رسولوں نےیہ حیثیت دی ہے او رجگہ جگہ ان کے اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیاہے۔ لفظ ‘ خلافت ’ اس کے بر خلاف عربی زبان کاایک لفظ ہےاور نیابت ، جانشینی اور حکومت  و اقتدار کے  معنی  میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ اس کے لغوی مفاہیم ہیں اور قرآن و حدیث میں ہر جگہ یہ اپنے ان لغوی مفاہیم ہی میں سے کسی ایک مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کی جو آیات ‘ خلیفہ’ اور ‘ خلافت’ کے الفاظ کو ان کے ترجمے میں بعینہ قائم رکھ کر لوگوں کو یہ باور کرانے کے لیے پیش کی گئی ہیں کہ قرآن نے یہ  لفظ کسی خاص اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہے، انہیں کسی مستند ترجمے یا تفسیر میں دیکھ لیجئے ، حقیقت اس طرح واضح ہوجائے گی کہ آپ کے پاس بھی تبصرے کے لئے کوئی الفاظ  باقی نہیں  رہیں گے، جس طرح کہ میرے ناقدین میں سے ایک صاحب علم کے پاس نہیں رہے ہیں ۔ میں یہاں  دو جلیل القدر علماکے تراجم پیش کیے دیتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے :
1۔ سورۃ بقرہ (2) کی آیت نمبر 30۔‘‘ اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو، مجھ کو بنانا ہے زمین میں ایک نائب ۔’’ ( شاہ عبدالقادر) ‘‘ اور جب کہا  تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب ’’۔ ( مولانا محمود الحسن)۔
2۔ سورہ ص (38) کی آیت نمبر 26۔ ‘‘ اے داؤد ، ہم نے کیا تجھ کو نائب ملک میں، سوتو حکومت کر لوگوں میں انصاف سے ’’۔ ( شاہ عبدالقادر) ‘‘ اے داؤد ، ہم نے کیا تجھ کو نائب ملک میں ، سوتو حکومت کر لوگوں میں انصاف سے۔’’( مولانا محمود الحسن)۔
3۔ سورہ نور (24) کی آیت نمبر 55۔ ‘‘ وعدہ دیا اللہ نے جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں اورکیے ہیں انہوں نے نیک کام ، البتہ  پیچھے حاکم کرے گا اُن کو ملک  میں، جیسا  حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو ۔’’( شاہ عبدالقادر)
‘‘ وعدہ کر لیا اللہ نے اُن لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کیے ہیں انہوں نے نیک کام، البتہ  پیچھے  حاکم کرے گا ان کو ملک میں ، جیسا حاکم کیا تھا  ان سے اگلو ں کو۔’’ (مولانا محمود الحسن) ‘نائب ’ اور ‘ حاکم’ کے الفاظ ان آیتوں میں ‘خلیفۃ’ اور ‘ اِستخلاف ’ کا ترجمہ ہیں اور صاف واضح ہے کہ اپنے اندر کوئی دینی مفہوم نہیں رکھتے ، اِلاّ یہ کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کا حوصلہ کرلے کہ عربی زبان کا ہر وہ لفظ جو قرآن میں استعمال کیا گیا ہو، دینی اصطلاح بن جاتا ہے ۔
یہی صورت  حال احادیث  و آثار کی ہے۔ اُن میں بھی لفظ ‘ خلافت’ او راس کے تمام مشتقات انہیں مفاہیم میں استعمال کیے گئے ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں ، یہاں تک کہ جانشین  کے معنی میں لفظ  ‘ خلیفۃ’ خود اللہ تعالیٰ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ‘ ہدایت یافتہ  حکومت’ یا ‘ نبوت کے طریقے  پر حکومت’، جیسے مدعا کو اداکرنا مقصود ہو تو اُس کے لئے یہ لفظ تنہا کافی نہیں  ہوتا، بلکہ  اس کے  ساتھ ‘ راشدہ ’ اور ‘ علی ’ منہاج النبوۃ ’ جیسی  تعبیرات کا اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے علما نے اِسی  طرح کی تعبیرات  کو مقدر مان کر خلافت کو ایک اصطلاح بنایا ہے۔ اِس  لحاظ سے یہ مسلمانوں کےعلم سیاست اور عمرانیات  کی ایک اصطلاح تو یقیناً ہوسکتی ہے،جیسے فقہ، کلام، حدیث اور اِس طرح کے دوسرے علوم کی اصطلاحات ہیں، مگر دینی اصطلاح نہیں ہوسکتی ۔ اللہ اور رسول کے سوا کسی کی ہستی نہیں ہے کہ وہ کسی لفظ کو دینی اصطلاح قرار دے۔ یہ انہیں  کا حق ہے اور کسی لفظ کے بارےمیں یہ دعویٰ کہ وہ دینی  اصطلاح ہے،انہیں  کے اشادات سےثابت کیا جائے گا۔ یہ ابن خلدون کے مقدمے سےثابت نہیں کیا جاسکتا ۔
رہی یہ بات کہ دنیا میں مسلمانوں کی ایک ہی حکومت ہونی چاہئے اور یہ اسلام کا حکم ہے تو قرآن سے واقف ہر صاحب علم جانتا ہے کہ وہ اِس طرح کے کسی حکم سےیکسر خالی ہے۔ دو حدیثیں ، البتہ اِ س کے حق میں پیش کی جاتی ہیں : اُن میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل  پر نبی حکومت کرتے تھے ۔ چنانچہ  ایک نبی دنیا سے رخصت ہوتاتو دوسرا اُس کی جگہ لے لیتا تھا ، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، حکمران، البتہ ہوں گے اور بہت ہوں گے ۔ پوچھا گیا : اُن کے بارے میں آپ ہمیں  کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : پہلے کے ساتھ عہد اطاعت کو پورا کرو، پھر اُس کے ساتھ جو اُس کے بعد پہلا ہو۔ دوسری یہ ہے کہ جب دو حکمرانوں کی بیعت کرلی جائے تو دوسرے کو قتل کردو۔ اِس دوسری حدیث پر تو اگر چہ سند کے لحاظ سے بھی بہت کچھ کلام کیا گیا ہے، لیکن برسبیل تنزل مان لیجئے ، تب بھی یہ حقیقت نا قابل انکا ر ہے کہ اِن حدیثوں میں وہ بات ہر گز نہیں کہی گئی جو اِن سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اِن میں جو کچھ کہا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ مسلمان اگر اپنی حکومت کے لیے کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت  کر لیں اور اِس کے بعد کوئی دوسرا بغاوت کر کے اٹھ کھڑا ہو او رلوگوں کو بیعت  کی دعوت دے تو ہر مسلمان کو پہلی بیعت پر قائم رہناچاہئے ۔ نیز یہ کہ اگر دوسرا اپنی حکومت  کا اعلان کر دے اور کچھ لوگ اُس کی بیعت  بھی کرلیں تو اُس کو قتل کردیا جائے۔
یہ ظاہر ہے کہ ایسی ہدایات ہیں جن کی معقولیت ہر شخص پر واضح کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد  جب انصار میں سے ایک شخص  نے یہ تجویز پیش کی کہ انصار او رمہاجر ین ، دونوں میں سے ایک ایک حکمران بنا لیا جائے تو سید نا عمر نے اِسی  اصول پر فرمایا کہ یہ تو ایک  نیام میں دو تلوار یں ہوجائیں گی اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی اِس موقع پر لوگوں کو متنبہ کیا کہ ایک ہی مملکت میں دو حکمران نہیں ہوسکتے ۔ اِس لیے کہ اِس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ سخت اختلافات پیدا ہوجائیں  گے، صلاح کے بجائے فساد بڑھے گا، پورا نظم منتشر ہوکر رہ جائے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جس طریقے پر چھوڑا تھا، اُس کی جگہ یہ بدعت لے لے گی کہ ایک ہی مملکت  میں دو لوگ حکومت کررہے ہوں گے۔
اِن روایتوں کی نسبت اگر خدا کے پیغمبر کی طرف صحیح ہے تو آپ نے جو کچھ فرمایا، وہ یہی تھا ، اِن سے یہ بات کسی منطق سے بھی بر آمد نہیں کی جاسکتی کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دنیا میں ایک ہی حکومت قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور اسلام کے داعی اگر کبھی امریکہ، برطانیہ یا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں لوگوں کی اکثریت کو مشرف بہ اسلام کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اِن احادیث و آثار کی رو سے وہ اپنے ملک میں اپنی الگ حکومت قائم نہیں کرسکتے اور اگر کریں گے تو گناہ گارہوں گے ، جس طرح کہ اِس وقت پچاس کے قریب ممالک کے مسلمان ہورہے ہیں، علما کو متنبہ رہناچاہئے کہ خدا کے دین میں جو بات جتنی ہو ، اُسے اتناہی رکھا جائے، یہ کسی عالم اور فقیہ اور محدث کا حق نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ایک ایسی بات کا مکلّف ٹھہرائے جس کا مکلّف اُن کے پروردگار نے اُن کو نہیں ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ میں نے لکھا ہے اور ایک مرتبہ پھر دہرا رہا ہوں کہ جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اُن کی ایک ریاست ہائے متحدہ کا قیام ہم میں سے ہر شخص کی خواہش ہوسکتی ہے او رہم اِس کو پورا کرنے کی جد وجہد بھی کرسکتے ہیں ، لیکن اِس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔
5 مارچ، 2015  بشکریہ : روز نامہ جدید خبر، نئی دہلی

No comments:

Post a Comment