Saturday, March 7, 2015

Forbiddance of Suicide Attacks and Forbiddance of Paradise for Suicide Attackers in Islam اسلام میں خودکشی اور خودکش حملہ آوروں پر جنت بھی حرام ہے  

Forbiddance of Suicide Attacks and Forbiddance of Paradise for Suicide Attackers in Islam اسلام میں خودکشی اور خودکش حملہ آوروں پر جنت بھی حرام ہے





غلام غوث، نیو ایج اسلام
(انگریزی سے ترجمہ)
07 فروری 2015
اس صدی کے اواخر میں  دہشت گردی کے حلقوں میں اسلام کے نام پر  خودکش دہشت گردی کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اسلام نے کبھی بھی کسی بھی وجہ سے خود کشی کو جواز فراہم نہیں کیا ہے۔ تاہم، کئی معاصر اسلام پسند دہشت گرد تنظیمیں پوری بیباکی کے ساتھ اسے اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہ کسی حیلے کے تحت اس کا جواز پیش کرتے ہیں لیکن یہ اسلام کو رسوا کرنے کا ایک آلہ کار بن چکا  ہے۔ اسلام میں یہ عمل سخت حرام ہے۔ اس کے مرتکب کھلے طور پر اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں۔ بے شمار احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے۔
قرآن میں خودکش حملوں کی ممانعت
دیگر افراد کے قتل کے لئے یا کسی بھی وجہ سے خودکش حملے کو قرآن مجید میں سخت حرام کاموں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالی  کا فرمان ہے:
"خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو"۔(4:29)
اللہ تعالی کا یہ حکم مومنوں کے لئے ہے۔ یہ امر بالکل واضح ہےکہ فرمانبردار مومن ہی اسے اہمیت دیں گے۔ صرف نافرمان بندے ہی خود کو ہلاکت میں ڈالیں گے۔ اس آیت میں خودکش حملوں کی ممانعت بالعموم ہے۔ کسی خاص وجہ سے قطع نظر خود کش حملے کی اجازت نہ تو انفرادی سطح پر ہے اور نہ ہی عوامی سطح پر ہے۔
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت (4:29) کی تشریح میں لکھتے ہیں:
"اس آیت "خود کو ہلاک نہ کر" سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظلماً خود کو ہلاک  کرنا یا کسی اور کو ہلاک کرنا ناجائز ہے (امام رازی، تفسیر کبیر، 57:10)
خودکش حملے کو آیت 4:29 میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور اس کی اگلی آیت (4:30) ہی میں اللہ تعالی نے خود کش حملہ آوروں کے لیے سزا کا قانون مرتب کیا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"اور جو شخص یہ (نافرمانیاں) سرکشی اور ظلم سے کرے گا تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ پرآسان ہے"۔(4:30)
اسلامی فقہاء کے درمیان اس بات پر بالعموم اتفاق ہے کہ جب اللہ تعالی بالعموم کوئی قانون مرتب فرماتا ہے تو ثبوت کی عدم موجودگی میں حدود  لگانا  درست نہیں ہے۔ اسی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کے لیے نام نہاد 'جہاد' کے نام پر خود کش حملوں کا جواز پیش کرنا  ناجائز ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کا نام نہاد 'جہاد' مسلمانوں اور غیر مسلموں سمیت معصوم شہریوں کے قتل سے موسوم ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جنگ کی صورت میں اسلامی جہاد کی اجازت صرف دفاعی صورت حال میں ہی تھی۔ یہ صرف ریاستی سطح پر دفاع کے لیے ہی ہمہ گیر ہے۔ لہذا، دہشت گرد تنظیموں کو اپنے عقیدے کی اصلاح کرنی چاہیے کہ جارحانہ حملوں کے لئے کبھی بھی خودکش حملوں کا جواز نہیں پیش کیا جا سکتا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی  نے بالعموم خودکش حملوں کی ممانعت فرمائی ہے۔ خودکش حملہ آوروں کا عذاب آتش جہنم ہے۔ لہٰذا دہشت گرد تنظیموں کو اور ان نوجوان کو جن کی منفی ذہن سازی کی گئی ہے کسی بھی مخصوص وجہ اس کا پابند نہیں رہنا چاہیے۔
ایک دوسری آیت میں اللہ کا فرمان ہے کہ:
"اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک واحسان کرو، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے" (2:195)
اسلامی فقہاء اور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت (2:195) کا نزول اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے کے سلسلے میں ہوا ہے۔ تاہم، انہوں نے اس آیت کو کسی بھی طرح سے خود کو ہلاک کرنے یا خود کش حملوں کے ارتکاب کو حرام قرار دینے کے لیے ایک ثبوت کے طور پر بھی نقل کیا ہے۔ انہوں نے اپنے اس فیصلے کی بنیاد اس آیت میں مذکور لفظ (تهلكة) کو بنایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ خودکش حملوں کی ممانعت کے لیے 4:29 اور 4:30 جیسی دوسری آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث کا بھی حوالہ پیش کرتے ہیں۔
امام بغوی نےآیت 4:30 کی تفسیر میں آیت 2:195 کا حوالہ پیش کیا ہے اور یہ لکھا ہےکہ "منقول ہےکہ انہوں نے خود کو ہلاک کرنے والے مسلمان کا ذکر کیا ہے"۔ (تفسیر بغوی المعروف بہ معالم التنزیل: 1:418)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے کہا:
"جہاں تک اس آیت (2:195) کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے سیاق و سباق تک ہی محدود رکھنے کی بات ہے تو اس کے لیے مزید گفتگو درکار ہے اس لیےکہ یہ حکم عموم معنیٰ پر مبنی ہے۔" (فتح الباری: 8/115)
امام شوکانی رحمہ اللہ نےفرمایا:
ابن جریر طبری کا ماننا ہے کہ:"آیت (2:195) کے تعلق سے گزشتہ علماء کرام کے بے شمار آراء و خیالات ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس لفظ میں اہمیت اس کے  عام معنیٰ کو حاصل ہے کسی مخصوص وجہ کو نہیں۔ دینی اور دنیوی لحاظ سے ہر وہ چیز اس لفظ (تهلكة) تباہی میں شامل ہے جس کا ذکر آیت 2:195 میں ہے۔ "(فتح القدیر: 1/193)
فقہ اسلامی کے اس مشہور اصول کی بنیاد پر کہ "حکم عام معنیٰ پر مبنی ہوتا ہے مخصوص معنیٰ پر نہیں" اسلامی فقہاء اور علماء کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میرا بھی یہی فیصلہ ہے کہ آیت 2:195 انفرادی یا عوام سطح پر خودکش حملوں سمیت تمام قسم کی تباہیوں کو ممنوع قرار دیتی ہے۔
چونکہ قرآن کو سمجھنے کا سب سے بہتر طریقہ"تفسیر قرآن بالقرآن" ہے اسی لیے میرا بھی یہی ماننا ہے کہ آیت 2:195 کی بہتر تفسیر تهلكة کے کے عمومی معنیٰ کے ساتھ آیت 4:29 کی روشنی میں کی جا سکتی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خودکش حملے حرام ہیں اور اللہ تعالی نے خودکش حملہ آوروں کے لئے جہنم میں مستقل عذاب کا حکم صادر فرمایا ہے۔
لفظ (تهلكة) کے عمومی معنیٰ کو سمجھ لینے اور آیت 2:195 کی تشریح آیت 4:29 کی روشنی میں ملاحظہ کر لینے کے بعد اب اہل ایمان پر یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام میں خود کش حملے سخت حرام ہیں۔ اور اگر کسی شخص کی بنیاد پرست نظریہ سازوں نے اس قدر منفی ذہن سازی کی ہو کہ وہ ان دونوں قرآنی آیات کی حقیقی تشریح تک پہنچنے میں ناکام رہا ہو یا کسی بھی شک یا الجھن کا شکار ہو گیا ہو تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار خوبصورت احادیث کی مدد سے بھی ان کے ذہن و ماغ کو صاف و شفاف کرنا چاہوں گا جن میں سختی کے ساتھ انفرادی یا عوام سطح پر خود کش حملوں کے خلاف ممانعت وادر ہوئی ہے۔
متعدد احادیث میں خودکش حملوں کی ممانعت
حضور سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خودکشی کا ارتکاب کرنے والا جہنم میں جائے گااور جہنم ہی اس کا دائمی مسکن ہوگا (صحیح بخاری، کتاب الادویات، "باب: زہر لینا اور طبی علاج کے لئے زہر کا یا ان چیزوں کا استعمال کرنا جن کے خطرناک یا نجس ہونے کا گمان ہو)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'جو شخص خود کشی کے لئے خود کو زخمی کرتا ہے وہ جہنم میں بھی خود کوزخمی کرتا رہے گا۔ اور جو شخص پہاڑ سے کود کر خود کشی کرے گا اسے جہنم میں بھی پہاڑوں سے گرایا جائے گا۔ اور جو شخص پھانسی لگا کر خودکشی کرے گا اسے جہنم میں بھی پھانسی دی جاتی رہے گی۔ (صحیح بخاری، کتاب:حقوق تدفین، باب: خود کشی کرنے والوں کا بیان)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی قسم کھاتا ہے (یعنی اگر وہ یہ کہتا ہے کہ اگر اس کی بات جھوٹ ہے تو وہ غیر مسلم ہے) تو یہ ایسا ہی ہے کہ اس نے کہا ہو کہ اگر اس کا حلف باطل ہے اور جو شخص جس چیز سے خود کشی کرتا ہے اسے جہنم میں اسی چیز سے سزا دی جائے گی، اور کسی مومن پر لعنت بھیجنا اسے قتل کرنے کی مانند ہے، اور جو کوئی کسی مومن پر کفر کا الزام لگاتا ہےتو یہ ایسا ہے گویا کہ اس نے اسے قتل کر دیا ہو۔" (صحیح بخاری، کتاب: اخلاق حسنہ، باب: اگر کسی نے کسی معقول بنیاد کے بغیر اپنے مسلم بھائی کو کافر کہا تو وہ خود کافر ہے، صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص جان بوجھ کسی پہاڑ سے کود کر خود کشی کرتا ہے وہ جہنم میں جائے گا اور ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جو زہر پی کر خود کشی کرتا ہے وہ جہنم کے اندر اپنے ہاتھ میں اپنے زہر کو لیکر چلے اور اسے پیئے گا اور ہمیشہ جہنم میں ہی رہے گا اور جو شخص کسی لوہے کے ہتھیار کی مدد سے خود کشی کرتا ہے وہ جہنم کے اندر اپنے ہاتھ سے اس ہٹھیار کو اپنے شکم پر مارے گا اور ہمیشہ جہنم میں ہی رہے گا ۔ " (صحیح بخاری، کتاب الادویات، "باب: زہر لینا اور طبی علاج کے لئے زہر کا یا ان چیزوں کا استعمال کرنا جن کے خطرناک یا نجس ہونے کا گمان ہو)
خود کش حملے کی دعوت دینے والے رہنماؤں کی اطاعت کی ممانعت
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج کو روانہ کیا اور ایک شخص کو اس کا کمانڈر مقرر کیا۔ اس کے بعد اس شخص نے آگ بھڑکائی اور فوجیوں کو اس میں داخل ہونے کے لیے کہا کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تبھی کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم اس سے دور بھاگ گئے (یعنی ہم نے خود کو آگ سے بچانے کے لئے اسلام قبول کیا ہے)۔ انہوں نے یہ سارا ماجرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں بیان کیا اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے آگ میں داخل کرنے کا ارادہ کیا تھا، فرمایا کہ ''اگر وہ اس میں داخل ہو جاتے تو وہ قیامت تک اسی میں رہتے۔'' پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں سے فرمایا کہ"برے کاموں میں کسی کی بھی اطاعت ضروری نہیں ہے اطاعت صرف نیک کاموں میں ضروری ہے ۔ "(صحیح بخاری، [کتاب: ایک سچے انسان کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کو قبول کرنا ، باب: تمام معاملات میں یک سچے انسان کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کو قبول کرنا، اور صحیح مسلم، [کتاب: قیادت]
اس سے ملتی جلتی حدیثیں الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں مندرج ہیں؛ صحیح مسلم [کتاب: قیادت، باب: ان معاملات میں رہنماؤں کی اطاعت کا وجوب جن میں گناہوں کا دخل نہ ہو ، لیکن گناہوں کے معاملات میں ان کی اطاعت کرنا حرام ہے]، سنن نسائی[کتاب البیعۃ، باب: گناہ کا حکم دینے اور اس کی اطاعت کرنے والوں کے لیے عذاب کا بیان] اور سنن ابی داؤد [کتاب الجہاد، باب: اطاعت کا بیان]۔
اس حدیث کے مطابق، رہنماؤں کی اطاعت صرف اچھے معاملات میں ہی ضروری ہے، برے معاملات میں نہیں، مثلاً: انفرادی یا عوام سطح پر خودکش حملے۔
خودکش حملہ آوروں کے لیے جنت کے ممانعت
جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی مسند میں لکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
"تم سے پہلے کے لوگوں میں ایک شخص کو زخم ہو گیا تھا۔ اس کا زخم اتنا اذیت ناک تھا کہ اس نے ایک چاقو لیا اور اس سے اپنے زخم کو کاٹ لیا اس سے اس کا خون نکلتا رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: میرے بندے نے خود میری پیش بندی کی، لہٰذا، میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے۔ یہ حدیث صحیح بخاری میں مروی ہے [کتاب الانبیاء: اسرائیل کے بچوں کے ذکر کا بیان] ، صحیح مسلم [کتاب الایمان، باب ‘خود کشی کی شدید ممانعت اور اگر کوئی جس چیز کی مدد سے خود کشی کرتا ہے اسے جہنم میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا] اور صحیح میں ابن حبان نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
جہاد کے دوران بھی خود کش حملہ آوروں کے لیے جنت کی ممانعت
قرآن اور حدیث کے مطابق خود کش حملہ بالعموم حرام ہے۔ تاہم، دہشت گرد تنظیمیں نام نہاد 'جہاد' اور 'شہادت' کی بنیاد پر کسی نہ کسی طرح اس کا جواز پیش کر کے نوجوان لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اللہ کی قسم وہ اس مندرجہ ذیل حدیث کو مسخ کر رہے ہیں اور اسے نظر انداز کر رہے ہیں جس میں اصلی جہاد (یعنی مدافعانہ جہاد) کے دوران بھی خود کشی کو حرام قرار دیا ہے، خود ساختہ 'جہاد' کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔
سہل سے مروی ہے:
اپنے ایک غزوہ کے دوران، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو اسلامی سپاہیوں کو مشرکین کے ساتھ لڑتا ہوا دیکھا اور پھر ان میں سے ہر ایک اپنے فوجی کیمپ میں واپس چلے گئے۔ مسلمانوں (کے لشکر) کے درمیان ایک ایسا شخص بھی تھا جو فوج سے دور دور جاکر ہر کافر کا پیچھا کر رہا تھا اور اس پر اپنی تلوار سے حملہ کر رہا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اتنے تسلی بخش طریقے سے کوئی بھی نہیں لڑ رہا ہے (یعنی، یہ بہت بہادر مسلمان ہے)۔" اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "اگر یہ شخص جہنمی ہے تو پھر تم میں سے کون جنتی ہے؟۔" پھر ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ "میں اس کی پیروی کروں گا اور اس کی تیز اور سست نقل و حرکت میں اس کے ساتھ رہوں گا۔" اسی اثناء وہ بہادر شخص زخمی ہو گیا اور یکلخت موت کی آرزو کرنے لگا ، اور اس نے تلوار کے ہینڈل کو زمین پر رکھا اور اس کی نوک کو اپنے سینے میں پیوست کر کے اس نے خودکشی  کر لی۔ اس کی میت کو دیکھنے والا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا اور کہا کہ: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں"۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "یہ کیا ہے؟" تو اس شخص نے پورا ماجرا بیان کیا۔ یہ سننے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی کا عمل لوگوں جنت کا عمل لگےلیکن در حقیقت وہ جہنم کا عمل ہے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا کام لوگوں کو جہنم کا عمل لگ سکتا ہے لیکن در اصل وہ جنتی ہوتے ہیں ۔" (صحیح بخاری [کتاب المغازی باب: غزوہ خیبر]، صحیح مسلم [کتاب العقائد »باب: خود کشی کے خلاف سخت ممانعت کی وضاحت، جو شخص جس چیز سے خود کشی کرتا ہے اسے جہنم میں اسی سے سزا دی جائے گی]
خودکش حملہ آوروں کی نماز جنازہ کو ترک کرنا
ایک روایت کے مطابق، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والے شخص کی نماز جنازہ نہیں ادا کی۔
جابر بن سمورا سے مروی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا جنازہ لایا گیا جس نے ایک کشادہ نوک والے تیر سے کود کشی کر لی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی- (صحیح مسلم [کتاب الجنائز، باب: خود کشی کرنے والوں کے جنازے کی نماز ترک کرنا]
مندرجہ بالا قرآنی آیات اور متعدد احادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک سچا مسلمان جسے کتاب اللہ کے بارے کوئی شک نہیں ہے اور جو حدیث کی حجیت پر یقین رکھتا ہے وہ کبھی بھی خود کش حملوں کا جواز پیش نہیں کر سکتا ۔ ایک مسلمان جسے اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی سچی حلاوت نصیب ہوئی ہو وہ ہمیشہ خود کش حملے کو ناجائز و حرام ہی سمجھے گا۔ ایک سچا مسلمان جسے زندگی کی نعمت عطا کرنے کے لیے ہمیشہ اللہ تعالی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے خود کو دھماکے سے اڑا کر اپنی اسی زندگی کو تباہ نہیں کر سکتا۔ وہ خود کش حملوں کے لئے کسی دوسرے مسلمان کو نہیں ابھار سکتا۔ اگر کوئی یہ  حرام عمل انجام دیتا ہے تو وہ جہنم میں عذاب کا مستحق ہوگا اور ہر اس راستے سے بھٹک جائے گا جو آخرت میں اللہ اور اس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقرب کا سبب ہے۔ لہذا، میرے عزیز اور کلمہ گو بھائیوں اور بہنوں برائے مہربانی کسی بھی خود کش حملوں کی دعوت دینے والے دہشت گرد نظریہ سازوں کا شکار نہ بنیں۔ شام، عراق، پاکستان، نائیجیریا اور لیبیا وغیرہ میں رونما ہونے والے نام نہاد 'جہاد' کی تو بات ہی چھوڑ دیں خودکش حملے حقیقی جہاد کے دوران بھی سخت حرام ہیں ۔ اللہ تعالی نے آپ تمام بنی نوع انسان کو محض اپنی عبادت کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔ "میں نے تمام جناتوں اور انسانوں کو اسی لیے پیدا کیا کہ وہ صرف میری عبادت کریں (51:56)"۔ قرآن یا حدیث میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ اللہ نے آپ سب کو خود کش حملوں کا ارتکاب کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اللہ کی منشاء یہ ہے کہ آپ سب خودکش حملوں سمیت تمام حرام کاموں سے اپنے آپ کو بچائیں اور اپنے دلوں کو اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے نور سے روشن کریں۔
اللہ تعالی ہمارے مسلمان بھائیوں کو دہشت گرد نظریہ سازوں سے بچائے!

No comments:

Post a Comment