Saturday, March 7, 2015

Extremists Should Learn From the Islamic Heritage Preserved in India !اسلام میں فن تعمیر کی تاریخی حیثیت اور مذہبی حرمت (قسط چہارم): انتہاپسند عناصر ہندوستان میں محفوظ اسلامی ورثہ سے سبق سیکھیں

Extremists Should Learn From the Islamic Heritage Preserved in India !اسلام میں فن تعمیر کی تاریخی حیثیت اور مذہبی حرمت (قسط چہارم): انتہاپسند عناصر ہندوستان میں محفوظ اسلامی ورثہ سے سبق سیکھیں



غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
22 نومبر2014
ہندوستان میں اسلامی فن تعمیر
یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اسلامی فن تعمیر برصغیر میں پھلا پھولا اور اور اپنے عروج کو پہنچا۔ مغلوں کے دور میں تعمیر کی گئی اکثر تاریخی عمارتیں مساجد، میناریں اور قلعے مسلم تہذیب کی  خوصورت عکاسی کرتے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخی مساجد کا سب سے منفرد  ثقافتی  پہلو یہ ہے کہ ان کے دروازےمذہب اور عقیدے سے قطع نظر تمام لوگوں کے لیے کھلے ہیں جو کہ دوسرے ممالک کی اہم مساجد میں بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہاں عموما مساجد کے ساتھ مدارس بھی متصل ہوتے ہیں جن میں مذہبی اور عصری دونوں قسم کی تعلیم دی جاتی  ہے۔ یہ روایت جنوبی ہندوستان، خاص طور پر کیرالا میں کی مسلم کمیونٹی میں اب بھی زندہ ہے ۔
ہندوستانی مسلم یادگاروں کی خصوصیات و  امتیازات
سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا فن تعمیر صرف مساجد، میناروں، گنبدوں، مقبروں  یا اس طرح کی دوسری مذہبی عمارتوں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں مسلم ماہرین تعمیرات کے نقطۂ نظر کی  اس کشادگی اور لچک کی بھی عکاسی ہوتی ہے جو انہوں نے ہندوستان میں اپنایا تھا۔ ملک کی ہمی گیر اور کثیر ثقافتی تہذیب کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر  ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے تعمیراتی کاموں میں تہذیبی عصبیت اور ثقافتی تنگ نظری کے فرسودہ نظام کو ختم کر دیا۔ مزید برآں، انہوں نے قومی، ثقافتی، موسمی اور مقامی حالات کو بڑی اہمیت دی اور اس وقت ہندوستان میں دستیاب مواد کا استعمال کرتے ہوئے علاقائی دست کاری کو  بھی فروغ دیا۔ ہندوستان میں اسلامی تاریخی مقامات اور عمارات کے اردگرد اکثر میناریں، باغات، ستون، چھت اور محراب ہیں جوکہ حیرت انگیز طور پر منفرد انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر سے انتہائی شاندار پھول اور ہندسی ڈیزائن کی نمائش ہوتی ہے۔
ہندوستان کی اسلامی تاریخی عمارتیں عالمی ثقافتی ورثہ ((World Cultural Heritage کے زمرہ میں بین الاقوامی  تاریخ وثقافت کاقابل قدر  اور بیش بہا حصہ شمار کی جاتی ہیں ۔ حتی کہ  یہ یورپی، امریکی ، افریقی اور خود مسلم ممالک کے لیے بھی فن تعمیر کی تحریک کا سرچشمہ  رہی ہیں۔ تاج محل نے ہی بڑے پیمانے پر دنیا کے سامنے ایک جامع اور ہمہ گیر فن تعمیر کی مسلم روایت کو متعارف کرایا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے قدیم مسجد بھی جنوبی  ہند کی ریاست  کیرالا میں واقع ہے۔ جنوب میں کیرالا سے شمال میں کشمیر تک اور مشرق میں تری پورہ سے مغرب میں گجرات تک ہندوستان میں بہ کثرت مسلم تعمیری ورثے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ ہندوستانی مسجدیں، مناریں، مرکزی مدارس، شاہی محلات اور قلعے اسلامی فن تعمیر کے خوبصورت اور انمول خزانے ہیں۔ یہ تاریخی یادگاریں نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے بلکہ ہندوستانی ثقافت کے بھی قیمتی اثاثے ہیں۔ آج  ان میں سے کئی ایک کو  عالمی ورثہ (World Heritage)  کا درجہ دیا جا چکا ہے۔ ایران، عرب اور وسطی ایشیاء کے مقامی معماروں اور  ہنرمند ہندوستانی کاریگروں    نے مشترکہ طور پر اس کثیر ثقافتی ملک میں اسلامی فن تعمیر کے ارتقاء  میں اہم رول  ادا کیا ہے۔ اس طر ح   برصغیر میں ایک  طویل مدت تک مسلمانوں  کے زیر سایہ ان کا حیرت انگیز تعمیری فن پروان چڑھتا رہا۔
ہندوستان میں اسلامی فن تعمیر کے ایک حالیہ سروے میں مساجد، مقبروں، مزارات، محلات، خانقاہوں اور دیگر روحانی مراکز کی ایک شاندار مسلم ثقافتی روایت کو متعارف کرایا گیا ہے ۔ ہندوستانی ثقافت اور سماج کے ساتھ شروع سے ہی اسلامی فن تعمیر کے کثیر جہتی روابط رہے ہیں۔ چونکہ بارہویں صدی اور انیسویں صدی کے وسط میں  برصغیر ہندکے اکثر حصےمسلمانوں کے ماتحت تھے، اس لیے عربی، ترکی اور فارسی فن تعمیر کا ایک منفرد اور مشترکہ حصہ اس کثیرثقافتی اور تکثیریت پسند ملک میں داخل ہو گیا۔ برصغیر میں اسلامی فن تعمیر کی تاریخ کا ایک وسیع منظر نامہ آرٹ اور فن تعمیر میں مسلمانوں کی مہارت کی خوبصورت یادوں کو تازہ کر دیتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر زمانے اور خطے کی اہم اسلامی یادگاریں اب بھی اپنی اصل شکل و صورت کے ساتھ محفوظ ہیں، خواہ وہ آگرہ کا شاندار تاج محل ہو، دہلی میں ہمایوں کا مقبرہ ہو یا  دہلی کے مختلف حصوں میں صوفیاء  کے پرانے مقبرے ہوں۔
مغلوں کا فن تعمیر
ہندوستانی اسلامی فن تعمیر کو عالمی ثقافتی ورثہ میں جو چیز شامل کرتی ہے،  وہ ہے مغلوں کا فن تعمیر۔ اس سے ہمیں ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کے تاریخی فنی اور  ثقافتی  کارناموں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مغلوں نے صدیوں پرانی ہندوستانی ویدک روایات سے ہم آہنگ اور ایران اور وسطی ایشیاء کی عمارتی ساخت اور آرائش و   زیبائش کے ساتھ اسلامی فن تعمیر کو غیر معمولی فروغ دیا۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں تعمیر کی گئی متاثر کن تخلیقی یادگاریں مسلمانوں کی حیرت انگیز طاقت، دولت اور کروفر کی عکاسی کرتی ہیں،  جو انہیں ہندوستان میں اپنے دور اقتدار میں حاصل تھیں۔ بابر، اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں جیسے ناقابل فراموش مسلم سلاطین  ہندوستان میں اسلامی فن تعمیر کے علمبردار تھے۔ مغلوں کی اکثر کلیدی یادگاریں، محلات اور باغات مغل حکومت کے شاہی مراکز یعنی دہلی، آگرہ اور فتح پور سیکری میں واقع ہیں۔ دہلی کا لال قلعہ اور آگرہ کا تاج محل اسلامی فن تعمیر کے دو ایسے شاہکار ہیں  جو دنیا بھر میں مقبول اور معروف سیاحت گاہ (Visiting Place)  کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
ہندوستان میں اسلامی تاریخی یادگاروں میں اکثر مزارات، مقبرے، مساجد یا محلات ہیں، جن میں سے اکثر  قابل اطمینان حالت میں ہیں، جب کہ  کچھ کی طرف حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ان میں سے بعض حکومتی لاپرواہی کا شکار ہیں، لیکن وہ کسی نہ کسی طرح محفوظ ہیں اور انہیں شرک وبدعت کے نام پر اس طرح تباہ و برباد نہیں کیا گیا  جیسا کہ آج سعودی عرب، عراق، شام، پاکستان اور افغانستان جیسے مسلم ممالک میں کیا جا رہا ہے۔ یہاں تو بہت سے ایسے قدیم حصار بند قلعے  بھی محفوظ ہیں جنہیں حملہ آوروں سے تحفظ فراہم کرنے کےلیے تعمیر کیا گیا تھا۔ الغرض  آج ہمارے ہندوستان میں مسلم تاریخی مقامات، یادگاریں اور عمارتیں بعینہ برقرار ہیں جس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف اسلامی باقیات کا تحفظ ہو رہا ہے وہیں  ہندوستانی سیاحت کو تیزی کے ساتھ فروغ بھی حاصل ہو رہا ہے۔ اس کی ایک مثال دہلی میں واقع  پرانا قلعہ ہے جسے 16ویں صدی میں ہمایوں اور شیر شاہ نے تعمیر کیا تھا۔ یہ ہندو مسلم مشترکہ فن تعمیر کی سب سے شاندار مثال ہے جو مغلوں کے دور حکومت میں میں پھلا اور پھولا ۔ یہ جمنا کے کنارے پر واقع دہلی کا  قدیم ترین قلعہ ہے۔ اس کا پورا پس منظر انتہائی تعجب خیز ہے جو اس طرح ہے کہ اس قلعہ کو سب سے پہلے مہابھارت میں ہندوستان کے پانڈوں نے دہلی کے قدیم شہر اندرپرستھ میں تعمیر کیا تھا۔ ہندوستان کے محکمۂ آثار قدیمہ کے ایک سروے میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ یہ قلعہ کم از کم 1000 سال قبل مسیح پرانا ہے۔ اور اس قلعہ کے کھنڈرات کو 1530 میں دوسرے مغل شہنشاہ ہمایوں نے دوبارہ تعمیر کیا تھا۔
پرانے قلعہ کے اندر قلعہ ٔ  کہنہ کے نام سے ایک مسجد ہے جو کہ قبل از مغلیہ دور کے اسلامی فن تعمیر کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے۔ آج جب کہ  مسلم ممالک میں بھی اسلامی عمارتیں محفوظ نہیں ہیں بلکہ انہیں منصوبہ بند طریقے سے میں منہدم اور تباہ و برباد کردیاگیا ہے اور مسلسل کیا جا رہا ہے،   ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے سب سے پرانے قلعہ میں قلعۂ کہنہ جیسی صدیوں پرانی مسجدیں ہندوستان میں  محفوظ اسلامی یادگار کی شاندار مثالیں  ہیں۔
اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ سے لے کر ہندوستان کے دارالحکومت دہلی تک ہندوستانی معماروں کی کاریگری میں فن تعمیر کی اسلامی روایت کا واضح اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ دور اول کے مسلم بادشاہوں سے لے کر  بعد کے مغل بادشاہوں کے زمانے تک ہندوستان اسلامی فن تعمیر کی حیرت انگیز اثرآفرینی اور انتہائی مقبولیت کا گواہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ عالم اسلام کے مسلمان بھی   ہندوستان آ کر اسلامی تاریخی عمارتوں، مسلم یادگاروں، ان کے شاندار ڈھانچوں، رنگا رنگ اور بوقلمونی پہلوؤں اور ثقافتی تنوعات کو دیکھتے ہی   فرحت وانبساط اور خوشی کے جذبہ سے سرشار ہو جاتے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment