Friday, February 6, 2015

Why Muslim Governments Want to Crush Each Other? مسلم حکومتیں ایک دوسرے کو کچلنے کے در پے کیوں؟

Why Muslim Governments Want to Crush Each Other? مسلم حکومتیں ایک دوسرے کو کچلنے کے در پے کیوں؟

سید شمشاد احمد ناصر ، نیو ایج اسلام
بسم اللہ الرحمان الرحیم
اللہ تعالیٰ نیا سال سب کو مبارک فرمائے۔ یہ سال انسانیت کے لئے اور خصوصا مظلوم انسانیت کے لئے بہت ہی بابرکت ہو۔ انسانیت جو دن بدن تباہی کے دہانے پر جا رہی ہے اور ہر دن جو طلوع ہو رہا ہے انسانیت کو بربادی کی طرف ہی لے جا رہا ہے ، کے لئے بھی خوشیوں اور کامیابی کا سال بنا دے۔
اس نئے سال میں دکھی انسانیت ، دکھوں سے ، تکلیفوں ، شر سے ، دہشت گردی ، بھوک و افلاس سے ، رشوت ، چوری ، ڈکیتی ، اخلاقی اور روحانی گراوٹ سے پاک صاف ہو کر اپنے ایک رب کی طرف جھکنے والی اسی کی عبادت کرنے والی بن جائے۔ سب کا ایک ہی خدا ہو سب کا ایک ہی رسول ﷺ ہو ، سب کا ایک ہی دین یعنی دین محمد مصطفی ﷺ ہو ، ہم ان دعاؤں سے ہی اس نئے سال کا آغاز کرتے ہیں۔
اگرچہ مجھے گذشتہ سال 2014 ؁ء کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اردو ، انگریزی ، عربی اور دنیا میں دیگر اخبارات میں اس سال 2014 ؁ کے کوائف شائع ہو گئے ہیں اور کچھ ہوتے رہیں گے ۔ قطع نظر اس کے کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ کھویا تو بہت زیادہ ہے پایا کم ہے۔
اس سال میں بہت سے ایسے سانحات ہوئے جس سے انسانیت نہ صرف شرمندہ ہوئی بلکہ روئی ، چیخی اور چلائی۔ خصوصا پشاور پاکستان میں معصوم بچوں کا خون جو طالبان نے کیا۔۔ وہ ساری انسانیت کا خون تھا۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے قبل شعیوں کے امام باڑوں پر ، عیسائیوں کے چرچوں ، اور انکی بستیوں کو جلا دینے پر ۔ احمدیوں کے گھروں اور مساجد کو جلا کر ، لوٹ کر اور ان پر حملہ کر کے یکدم 90 سے زائد افراد مار کر ، شیعوں کو بسوں سے نکال کر مار دینے پر ، عیسائی جوڑے کو مار مار کر آگ کے بھٹے میں زندہ جلا دینے پر ، اور پولیس کی تحویل میں مزعومہ توہین رسالت کے جھوٹے الزام کے سبب مار دینے پر، کسی کی آنکھ سے آنسو نہ بہا، کسی نے اس دہشت گردی ، بربریت اور سفاکی پر واویلا نہ کیا۔ کسی کی شرافت نے منہ سے ایک لفظ تک ہمدری کا نہ بولا ۔ جس سے آج ان لوگوں کی دلیری مزید بڑھ گئی اور انہوں نے 150 معصوم بچوں کی جانیں لے لیں۔ہم ان سب سانحات کی
مذمت کرتے ہیں اور ارباب حل و اقتدار سے کہتے ہیں کہ خدارا انصاف سے کام لیں۔ کسی بھی مذھب کا اگر ایک آدمی بھی مارا جاتا ہے تو اس کی ساری ذمہ داری حکومت وقت پر ہے۔
اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ جو کچھ بھی پایا اس پر شکر خداوندی بھی لازم ہے کیوں کہ ارشاد خداوندی ہے کہ مرا شکر کرو گے تو میں اپنے انعامات مزید بڑھا کر عطا کروں گا پس الحمد للہ کہ ہمیں خدا نے بہت سے انعام سے بھی نوازا۔
جہاں خدا تعالیٰ کے انعامات پر شکر لازم ہے وہاں ہمیں بندوں کا بھی شکر گذار ہونا چاہئے۔ اپنے معاشرہ میں جس جس نے بھی ہم سے نیکی کی ۔ محبت کی ۔ عزت کی۔ اس کے بھی ہم شکر گذار ہیں ۔ یورپین ملکوں میں تو ہمیں خدا تعالیٰ کے بعد حکومتوں کا بھی شکر گذار ہونا چاہئے۔ کیوں کہ ان کے زیر سایہ رہنے سے ہمیں مذھبی آزادی ملی ہوئی ہے۔ ہم پوری آزادی کے ساتھ اپنے خدائے واحد کی عبادت کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے مذھب کی باتوں پر عمل کر سکتے ہیں ۔ ہم اپنے مذھب کا بڑی آزادی کے ساتھ پرچار کر سکتے ہیں ۔ دعوت الی اللہ کر سکتے ہیں۔ اس پر بہت زیادہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر واجب ہے اور حکومت وقت کا بھی۔یعنی ان حکومتوں کا جہنوں نے ہمیں یہ آزادی دے رکھی ہے۔
اسلام ایساپیارا مذھب ہے جو ہر ایک کو امن کی۔ پیار کی ، آشتی کا پیغام دیتا ہے اور بھائی چارے اخوت و محبت کا درس دیتا ہے۔ ہر ایک کا عزت و احترام سکھاتا اور آزادی مذھب کا علمبردار ہے۔ مگر وائے افسوس ۵۳ اسلامی ممالک میں سے ایسا ایک بھی نہیں جس کی طرف انگلی اٹھا کر کہا جائے کہ یہ اسلام کی حقیقی تصویر ہیں۔ اصل مذھب کی جگہ سیاست نے لے لی ہے۔ اور مسلمان ہی مسلمان کے خلاف کردار ادا کرتا ہے۔ مسلمان حکومتیں دوسری مسلمان حکومتوں کو کچلنے کے در پے ہیں۔ ہر اسلامی مملکت دوسری اسلامی مملک کے خون کی پیاسی نظر آ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے سب کو محفوظ رکھے۔ آمین۔
پس نئے سال میں ہر ایک عزم اور استقامت کے ساتھ اپنے نفس کی تبدیلی میں لگ جائے اور خدا تعالیٰ سے پکا عہد کرے کہ سب سے پہلے وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے گا ۔ جب تک انسان خود اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کرے کسی قسم کا وعظ و نصیحت بھی فائدہ مند نہیں ہوتا۔ اول اپنے نفس کا محاسبہ کریں۔ اپنے نفس کو ٹٹولیں کہ ہم نے جو کچھ کرنا تھا اس پر کہاں تک عمل کیا ہے۔ اگر ہر شخص اپنا محاسبہ خود کرنا شروع کر دے تو معاشرہ میں بڑی زبردست قسم کی نیکیوں کا انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔
اس موقعہ پر میں حکومت وقت خصوصا کیلیفورنیا میں لاس اینجلس، سپروائزرکا ؤنٹی چیف پولیس ، فائر ڈیپارٹمنٹ اور اخبارات کے ایڈیٹرز اور رپورٹرز اور مذھبی لیڈروں کا بھی شکر گذار ہوں اور اسی طرح ایریزونا کے علاقہ میں بھی کہ انہوں نے ہماری جماعت کے ساتھ تعاون کیا۔
چونکہ اسی سال ۲۰۱۴ ؁ء میں ، میں کیلیفورنیا سے شکاگو کے علاقہ میں تبدیل ہو کر آیا ہوں اور بیت الجامع میں میری ڈیوٹی ہے۔ اس لئے جب سے آیا ہوں یہاں کے اخبارات کے ایڈیٹرز اور رپورٹرز نیز پولیس ، دیگر حکومتی اداروں نے ۔اور مذھبی لیڈروں کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات استوار ہوئے اور انہوں نے بھی ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔ آمین۔
درود شریف اور نیا سال:
آئیے اس نئے سال میں ہم کچھ نیکیوں کے کرنے کا ارادہ اور عزم کریں۔ اس نئے سال کو ہم درود شریف کی کثرت کے ساتھ ورد کرنے سے شروع کریں یعنی یہ کہ کثرت سے آنحضرت ﷺ پر درود شریف پڑھیں۔ اس ضمن میں قرآن کریم کی یہ نصیحت ہے:
’’یقیناًاللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو۔ تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو‘‘۔ (57:33)
حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں ۔ ’’اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔ آپؐ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا ور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالی نےٰ ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گذاری کے طور پر درود بھیجیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 24)
پس اس سال کے شروع ہی میں یہ عہد کریں کہ ہم کثرت کے ساتھ درود شریف کا ورد کریں گے۔ اس ضمن میں آنحضرت ﷺ کی کچھ نصائح بیان کی جاتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار درود بھیجے گا۔ ‘‘صحیح مسلم ، ماخوذ درود شریف صفحہ 151 مصنفہ حضرت مولوی محمداسماعیل حلال پوری)
آپؐ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ نے آ کر مجھے کہا کہ تمہاری امت کا جو شخص تم پر ایک بار عمدگی سے درود بھیجے گا اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ اس کی دس نیکیاں لکھے گا۔ اور اس کی دس بدیاں معاف فرمائے گا۔ اور اس کے دس درجے بلند کرے گا اور ویسی ہی اس پر رحمت نازل کرے گا جیسی اس نے تمہارے لئے مانگی ہو گی‘‘ (درود شریف صفحہ 154)
آپؐ نے فرمایا : ’’مجھ پر درود بھیجا کرو، تمہارا مجھ پر درود بھیجنا خود تمہاری پاکیزگی اور ترقی کا ذریعہ ہے ‘‘ صفحہ 155
آپؐ نے فرمایا : ’’ جس نے مجھ پر درود بھیجنا چھوڑا اس نے جنت کی راہ کو چھوڑ دیا ‘‘ صفحہ 157
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے ’’جو شخص ایک دن میں ہزار مرتبہ مجھ پر دورد بھیجے گا وہ اسی زندگی میں جنت کے اندر اپنا مقام دیکھ لے گا۔ ‘‘ کتاب درود شریف صفحہ158۔157)
آپؐ نے مزید فرمایا : جو شخص مجھ پر درود بھیجے گا قیامت کے روز میں اس کی شفاعت کروں گا ‘‘ صفحہ 162
درود شریف اور زیارت رسولؐ
حضرت علامہ غزالی کا بیان فرمودہ ایک روح پرور واقعہ:
’’ایک آدمی حضور ﷺ پر درود نہیں بھیجتا تھا۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ حضور ﷺ نے اس کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔ اس شخص نے عرض کیا کہ حضور مجھ سے ناراض ہیں ۔ اسی لئے آپ نے توجہ نہیں فرمائی؟ آپ نے جواب دیا نہیں میں تجھے پہچانتا ہی نہیں۔ اس نے عرض کی حضور آپ مجھے کیسے نہیں پہچانتے؟ علماء کہتے ہیں کہ آپ اپنے امتیوں کو ان کی ماں سے بحق زیادہ پہچانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا علماء نے سچ اور درست فرمایا لیکن تو نے مجھ پر درود بھیج کر اپنی یاد نہیں دلائی۔ میرا کوئی امتی جتنا مجھ پر درود بھیجتا ہے اسے اتنا ہی میں پہچانتا ہوں۔ یہ بات اس شخص کے دل میں اتر گئی۔ اس نے روزانہ ایک سو مرتبہ درود پڑھنا شروع کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد اسے پھر سرور کائنات ﷺ کا دیدار ہوا۔آپ نے فرمایا اب میں تجھے پہچانتا ہوں اور میں تیری شفاعت کروں گا ۔اس طرح سے وہ حضور کا محب بن گیا (مکا شفۃ القلوب۔ صفحہ 62۔ 63 مصنفہ امام ابو حامد محمد غزالی مترجم علامہ عنصر صابرہ چشتی قادری۔ ناشر تصوف پبلیکشنز رائے ونڈ لاہور۔ اشاعت 1986ء)
URL:

No comments:

Post a Comment